• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادویات کی قیمتوں میں ایک بار پھر 7سے 10فیصد اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ نیا پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ادویات کے نرخ چھٹی مرتبہ بڑھائے گئے ہیں اور دو سال کے دوران ادویات کی قیمتوں میں 200فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پہلی بار ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن 24دسمبر 2018کو جاری کیا گیا، محض سات دن بعد قیمتیں مزید بڑھائی گئیں اور 10جنوری 2019کو ایک اور نوٹیفکیشن کے ذریعے ادویات کے نرخوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا۔

نیب نے قیمتوں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیا اور مافیا کو قانون کے کٹہرے میں لاکر احتساب کرنے کا وعدہ کیا۔ اکائونٹنٹ جنرل پاکستان نے اس ظلم اور زیادتی کا سخت نوٹس لیا۔ وزیراعظم جو عام آدمی اور دیہاڑی دار مزدور کی فکر میں گھلے جاتے ہیں، انہوں نے اپریل 2019میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیا اور حکم دیا کہ 72گھنٹوں میں ادویات کی قیمتیں واپس پہلے والی پوزیشن پر لائی جائیں لیکن تادم تحریر ان احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔

ممکن ہے کہ ظالم ’’اشرافیہ‘‘ نے وزیراعظم کے اس فرمان کو سبوتاژکیا ہو۔یوں تو نئے پاکستان میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مافیا ز کو ایسی آزادی ملی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی مگر ڈرگز مافیا کے تو وارے نیارے ہو گئے ہیں۔

پرانے پاکستان کی آخری حکومت جس کے بارے میں مکمل وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ ایک کرپٹ حکومت تھی ،اس نے 27نومبر2013کو ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔ ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے بانی اس احتجاج میں پیش پیش تھے۔

عوامی احتجاج رنگ لایا اور تین دن بعد ہی حکومت ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ فارما مینوفیکچرز ایسوسی ایشن نے بڑے وکلا کی خدمات حاصل کیں۔ ایک کمپنی کی نمائندگی اعتزاز احسن کر رہے تھے ،دوسری کمپنی نے جسٹس (ر)رشید اے رضوی کی خدمات حاصل کیں تو تیسری نے حفیظ پیرزادہ کو وکیل کرلیا۔ سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی جس میں پہلے نوٹیفکیشن کو واپس لینے سے متعلق دوسرے نوٹیفکیشن کو چیلنج کر دیا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ ڈرگز مافیا نے حکومت سے بھی پس پردہ کوئی مفاہمت کرلی تھی کہ پارٹی فنڈ میں معقول حصہ دینے کے عوض مقدمے کی پیروی موثر انداز میں نہیں کی جائے گی اور اگر سندھ ہائیکورٹ نے حکم امتناع جاری کردیا تو اسے ختم کروانے کی کوشش نہیںکی جائے گی۔ سندھ ہائیکورٹ نے قیمتوں میں اضافہ واپس لینے سے متعلق حکومتی نوٹیفکیشن کو معطل کردیا اور یوں ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد اضافہ ہو گیا۔

پانچ سال تک اسٹے آرڈر برقرار رہا اور ڈرگز مافیا ناجائز منافع کماتا رہا۔ادویہ سازی کا شعبہ تیز تر ترقی کرنے کے حساب سے اپنی مثال آپ ہے۔ موجودہ حکومت کے دو سال میں معیشت تباہ ہو گئی ہے، فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں اور ہر طرف مندے کا رجحان ہے مگر ڈرگز مافیا حسب سابق ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان فارما انڈسٹری میں سالانہ 15فیصد بڑھوتری کی شرح ہے اور مقامی ادویہ ساز کمپنیوں نے منافع کمانے کے اعتبار سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

2013میں فارما انڈسٹری کا حجم 4ارب ڈالر تھا جواب بڑھ کر 8ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ اگر آپ سالانہ 15فیصد بڑھوتری کے حساب سے تخمینہ لگائیں تو ڈرگز مافیا نے عدالت سے حاصل کئے گئے حکم امتناعی کے پیچھے چھپ کر 15فیصد اضافے سے پانچ سال کے دوران کم از کم 522ارب روپے اضافی کمائے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو بجائے لوٹی گئی رقم وصول کرنے کے کہہ دیا گیا کہ ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی اور فارما مینوفیکچرز ایسوسی ایشن مل بیٹھ کر اس معاملے کو طے کریں ۔

نئے پاکستان میں طے یہ ہوا کہ نہ صرف 2013میں کئے گئے 15فیصد اضافے کو جائز اور قانونی قرار دیا جائے بلکہ ادویات کی قیمتوں میں مزید 200فیصد اضافہ کرکے نیا ریکارڈ قائم کر دیا جائے۔ ان ہی کے دور میں ہی ایک مردہ شخص کو زندہ کرکے جس طرح ڈریپ کا سربراہ لگایا گیا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ ڈریپ کے سابق سی ای او شیخ اختر کے خلاف نیب نے کرپشن ریفرنس میں کارروائی کی تو اس کے اہلخانہ کی طرف سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پیش کردیا گیا کہ وہ تو فوت ہو چکے ہیں مگر 2018ءمیں وہ اچانک نہ صرف زندہ ہوئے بلکہ انہیں ڈریپ کا سربراہ لگا دیا گیا۔ یہ سب باتیں اخبارات اور ٹی وی چینلز میں رپورٹ ہو چکی ہیں۔

ہمارے ہاں کئی طاقتور مافیاز ہیں مگر ڈرگز مافیا کا کوئی جواب نہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی جس کا کام ادویہ ساز کمپنیوں کو ضابطے میں رکھنا ہے، اس کے پاس نہ تو ادویات کی قیمتوں کا کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی رجسٹریشن کا۔ ہر بار جب قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ادویہ ساز کمپنیوں کو خط لکھ کر قیمتوں کی فہرست منگوائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قیمتوں میں جو ہیرا پھیری کرنی ہے کرلیں۔

3جنوری2017کو ڈریپ نے فارما کمپنیوں کو خط لکھ کر ادویات کی قیمتوں کی فہرستیں مانگیں۔ 26مارچ 2019کو ایک بار پھر خط لکھ کر ریکارڈ طلب کیا گیا۔اور اب قیمتوں میں حالیہ اضافے سے چند روز قبل فارما کمپنیوں کو ایک بار پھر خط لکھ کر قیمتوں کا ریکارڈ مانگا گیا۔

ان خطوط کا مطلب یہ ہے کہ ’’ساڈے تے نہ رہنا‘‘۔ اس سے بڑاظلم اور زیادتی کیا ہوگی کہ سبزی منڈی میں ٹماٹر اور پیاز کے نرخوں کا ریکارڈ ہوتا ہے ،دودھ اور آٹے کے سرکاری نرخوں کا تعین ہوتا ہے مگر جان بچانے والی ادویات کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے کے پاس ڈرگز کی قیمتوں کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں۔

ڈرگز مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ اپنا ’’اثاثہ‘‘بن جانے والے افراد کو گرم ہوا بھی نہیں لگنے دیتا ۔وفاقی وزیر مملکت کو ادویہ ساز کمپنیوں سے ساز باز کے الزام میں عہدے سے ہٹایا گیا تھا لیکن کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔

ڈریپ میںکتنے سی ای اوآئے اور چلے گئے مگر ڈائریکٹر پرائسنگ کے عہدے پر ایک ہی شخص لگ بھگ 18سے سے براجمان ہے۔ڈرگز مافیا قہقہے لگا رہا ہے ،چلا کر کہہ رہا ہے،روک سکو تو روک لو۔

تازہ ترین