• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر قابلِ صد احترام و افتخار” آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی دفعہ باسٹھ ترسٹھ کی تحقیرکا عمل مکمل ہوا۔ جیو اور جنگ کی امیدواران کو 62/63 پرپرکھنے کی التجاء بظاہر فخرو بھائی کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہی ۔ سارے لیٹرے ، قومی دولت کو تھوک لگانے والے ،ٹیکس چور، کمیشن مافیا، بے نامی جائیدادیں رکھنے والے، جعلی ڈگریوں والے، منی لانڈرنگ والے اگلی اسمبلی کی اگلی نشستوں پر صاف بیٹھے نظر آرہے ہیں ایسے میں الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ آفیسرز، اپیلٹ ٹریبونل بارے تفکرات کا گہرا ہونا لازم ہے۔
لوئرعدالتوں میں ہونے والے واقعات کا نوٹس تو عزتِ مآب چیف صاحب نے بھی بھرپور انداز میں لیا۔محترم جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے تو اپنے فیصلے میں دل دہلا دینے والے الفاظ رقم کئے ہیں۔” ریٹرنگ آفیسرز کے رویئے، سوالات اور فیصلوں سے عدلیہ کاسر شرم کے مارے جھک گیا ہے“۔فیصلے قواعد،ضابطے ، آئین ، سپریم کورٹ کے فیصلوں سے ماوراء کیوں نظر آئے ؟
عوام تو موجودہ عدالتوں سے انصاف کی موسلادھار بارش دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یک رنگ انصاف، دو رنگ نہ سہ رنگ۔ 2013 کے انتخابات کا انتظار تھا ہی اس بنا پر کہ آئین کا احترام کرنے والی قیادت کو موقع ملے گا۔ اس تمنا کے ساتھ کہ دن دہاڑے جرائم کرنے والے، سرعام شراب نوشی کرنے والے ، ٹیکس چور، منی لانڈرنگ میں ملوث، خوردبرد اور غبن میں ملوث دوران اقتدار سرکاری وسائل کے ذریعے جائیدادیں ، فیکٹریاں لگانے والے 62/63 کا پل صراط عبورنہ کر پائیں گے۔پچھلے ہفتے چنددن راولپنڈی اپیلٹ ٹریبونل کی کارروائی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کمی کمینوں کو توکڑے انصاف کا سامنا کرناپڑرہا تھا۔ جبکہ قومی مجرموں نے انصاف کو موم بنا ئے رکھا۔ دکھ بھی اور صدمہ بھی۔ اگر عزت مآب چیف جسٹس صاحب صر ف راولپنڈی اپیلٹ ٹریبونل کورٹ کے فیصلوں کی پڑتال کروا لیں تو صورت ِ حال کا بخوبی ادراک ہو جائے گا۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں کہ فیصلوں میں Rules of Consistency کا عدم وجود قابل تو جہ بھی اور قابل گرفت بھی۔
چوہدری نثار علی کے کاغذات ماتحت عدلیہ میں جائیداد کوظاہر نہ کرنے پر مسترد ہوئے ۔ پولٹری کنٹرول شیڈ زجو ایک شیڈ 2 کروڑ لاگت کاہے کا کہیں ذکر نہ تھا۔ ٹریبونل کا چوہدری نثارسے صرف نظرخیرہ کن تھا جبکہ اسی سانس میں فوراََ بعد آنے والے دو ایسے کیسزکہ ایک امیدوار کا70 ہزار روپے کا بینک اکاؤنٹ درج نہ ہونے پر نااہلی کا حکم صادر ۔دوسرا امیدوار اپنے عمرہ کو بیرون ملک ٹرپ کا حصہ نہ بنا سکے چنانچہ انہیں بھی امیدواری سے ہاتھ دھوناپڑا۔جعلی ڈگریوں پر عزت مآب چیف جسٹس صاحب اویس نجیب کیس میں تصدیق کو لازمی قراردے چکے ہیں۔ رشیداکبر، سعید اور حمید نوانی برادران کے خلاف پنجاب یونیورسٹی اور جامعہ المنتظر کی اسناد جعلی ثابت ہو چکی ہیں۔ماتحت عدالت نے اسی بنانااہل قرار دیا۔ ٹریبونل نے یہ کہہ کر بحال کر دیا کہ وقت کی کمی کی بنا پر ریکارڈ طلب نہیں کیا جا سکتا۔) چیف صاحب کی واضح ہدایات کہ” پچھلی اسمبلی کے ممبران کو اپنی ڈگریاں HEC سے تصدیق کرواکر دینی ہوں گی“ کی دھجیاں بکھیر دیں(۔ انعام اللہ خان کا جو کہ بینک قرض میں فقط ضامن۔ نہ پارٹنر نہ ڈائریکٹر۔ سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ موجود کہ ضامن ڈیفالٹر کے زمرے میں نہیں آتا، آئین پاکستان میں ضامن ڈیفالٹرنہیں۔ الیکشن کمیشن کا قانون صرف ایسے بندے کو روکتا ہے جو کسی کاروبار کا منتظم یابڑاحصہ دار ہو۔قرضہ کے عوض جو پراپرٹی رہن ہے وہ 16 سال پہلے قرضے سے دوگنی قیمت اور ڈائریکٹر کی ذاتی گارنٹی اس پر مستزاد ۔اس مفروضے پر فیصلہ کہ رہن پراپرٹی اور پرسنلز گارنٹی قرض کو ادا کرنے میں ناکافی ہوں گی ۔اس لیے ضامن کو پہلے سزا دے دو۔ خاصا مضحکہ خیز بھی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی بے توقیر ی بھی۔سابق صدر رفیق تارڑکا ”طوطا اور طوطی “ سے انصاف والا لطیفہ حسبِ حال ہے۔عزتِ مآب انصاف عدلیہ کی ضرورت بھی اور قوم کی ضرورت بھی۔
اوائل شعور ہی سے نظریاتی سمت کا تعین کر لیا تھا ۔ سورج کی پوجا ذہن کے کسی خانے میں جگہ بنا نہ پائی۔ سورج کے چڑھنے سے دلچسپی اور نہ ڈوبنے سے۔ جس کا پجاری ہوں وہ ہمیشہ سے نصف نہار پر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔تحریک انصاف کو دل و جان سے چاہا اور اپنی استطاعت سے زیادہ خدمت کی ۔ اس کی تکلیف مجھے پریشان کر دیتی ہے ۔تحریک انصاف نے دن رات ایک کر کے اپنے امیدواروں کے ٹکٹ تو حتمی کر لئے لیکن سال انٹراپارٹی الیکشن نے ہڑپ کر لیا ۔ دعا ہے کہ اگلے3 ہفتے ٹکٹوں کے تنازعات کی نذر نہ ہو جائیں۔ سوات میں کالے جھنڈوں سے استقبال کوئی اچھا سین نہ تھا۔ عمران خان نے انتہائی اخلاص اور دیانت کے ساتھ اپنی قوم کے لیے اپنی زندگی کے بہترین سالنذر کیے ۔ایسے سال جو ان کی ذاتی زندگی کو چار چاندلگا سکتے تھے ۔ رومانوی کردارکا روپ تو اوائل جوانی میں ہی دھار چکے تھے۔ چنانچہ عوام الناس کی محبت کا مظاہرہ 1994 میں ہسپتال کی چندہ مہم میں کوئی اچنبھے کی بات نہ تھا۔ قوم کو بیچ منجدھار اور طوفان میں دیکھ کر جب خیال آیا کہ کیوں نہ عملی جدوجہدکی جائے۔ سیاست کے میدان میں کودے تو اٹھائی گیر، بددیانت، دروغ گو،خائن سراسیمہ ہو گئے۔ ایک عرصے تک عمران خان پر عرصہ حیات تنگ رکھا ۔بالآخر عوام الناس بصورت سونامی اور ابابیلیں بہ شکل نوجوان امڈ آئے ۔15 مہینے پہلے والی تحریک انصاف جو بلا شرکت غیرے پاکستانی سیاست میں بام عروج حاصل کر چکی تھی اور انتخابات بس ترنوالہ ہی تھے۔آج ایک سے ایک نئی مشکل سے دوچار ہے۔ آفرین ہے عمران خان پر کہ جوانمردی سے نبرد آزما ہیں۔جن خانہ بدوشوں نے PTI کو ان مشکلات میں ڈالاہے ان کی بھی کبھی پکڑ ہو سکے گی؟۔ اس سے پہلے کہ ایسے خانہ بدوش نئے کاشانے اورآشیانے تلاش کر یں کیاان کا تکہ بوٹی ہو پائے گی؟نالائقی اور بدنیتی ناسور بن چکی ہے ۔تنظیمی معاملات میں اصول، ضابطہ، قاعدہ نام کی چیز تو کبھی تھی ہی نہیں۔ ایک حلقے کا پرکھنے کا معیار دوسرے حلقے سے مختلف نظر آیا۔
کم وبیش 6/8ماہ قبل گمان اغلب تھا کہ میانوالی، چکوال، بھکر، خوشاب، لیہ ، جھنگ مخالفین کا قبرستان بنے گا۔ بڑے بڑے نام اپنی ٹکٹوں کی یقین دہانی کے لیے ترس رہے تھے ، کارکن یکسو تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ان ضلعوں سے سیٹ کا ملنا بونس ہے ۔ NA-71 جو تحریک انصاف کی مضبوط ترین سیٹ تھی جبکہ مخالفین ھتیار پھینک چکے تھے ۔ اس حلقے کو کیوں نقصان پہنچایا؟
انعام اللہ خان جو NA-72 کی سیٹ کلیئر کر چکا تھااس پر خود کش حملہ کیوں ؟۔ یہ باور کروایا گیا انعام اللہ کمزور امیدوار اور تاحدنگاہ مزاحیہ پر و گرام ”امجد ایک مضبوط امیدوار ثا بت ہو گا“۔ بہرحال عملاََ یہ فیصلہ NA-71 کی بنیادوں کو کھو کھلا کرگیا۔ جس گھر نے2002 میں خان صاحب کو جائے اماں دی اس کو تہس نہس کر دیاگیا۔القائدہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ القائدہ کا کیا بگڑا؟ عزت ، غیرت ، بے عزتی القائدہ کا شعبہ ہی نہیں۔پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کا قول ”کہ جس گھر میں گھسی وہ گھر برباد جس سیاسی جماعت میں شامل ہوئی وہ تباہ“۔باقی رہے” زنانہ ڈبے“ کے سوار ممبری کے امیدوار وہ فقط NA-71 میں عمران خان کی پوزیشن کو کمزور کرنے میں ہی موثر ہوں گے۔ میانوالی کے غیرتمندوں کے ہاں بے غیرتی اور دھوکا کی کوئی جگہ نہیں۔5 نومبر 2011 کو جب عمران خان سارے خاندان کو لے کر انعام اللہ کے لیے شمولیت کا دعوت نامہ لایا تو میانوالی کی غیرت کا تقاضا تھا کہ مایوس نہ لوٹایا جاتا اور پھر انعام اللہ نے ساتھ بھی کیسا نبھایاجو ہمیشہ سے میانوالی کے غیرتمندوں کا شیوہ رہا۔ کیا معلوم تھا کہ دراصل خانصاحب 2013 کے انتخابات کے لیے میانوالی قربانی کے بکرے کی خریداری کے لیے آئے تھے۔ جو کہ آئندہ انتخابات میں ماجدخان کے ہم پلہ استعمال ہو سکے۔ سکیم میں خامی ایک ہی رہ گئی تھی کہ کرکٹ بائی چانس ہے اور سیاست بائی چال ۔”اللہ چالیں چلنے والوں سے بہترین چال چلنے والا ہے“۔بدقسمتی ہی کہیں گے کہ آج NA-71میں چیئرمین صاحب قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں اور تحریک انصاف کے کارکن انتخابی عمل سے باہر تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ 71/72 کاتیاپانچہ کرنے کے بعد ضلع بھکر جو میانوالی کا جڑواں بھائی ہے پر خود کش حملہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ضلعی تنظیم نے جو نام پیش کیے ۔ ان کو نظر انداز کر کے ”امجد ٹائپ معروف نام “ڈھونڈے گئے ناکامی پر بے نام امیدوار اتاردئیے ۔ NA-72 کا احساس جرم پتہ نہیں اور کتنے بلنڈر کروائے گا۔شومئی قسمت کہ بھکر میں بھی نیک نام امیدوار ڈاکٹر محمد عظیم خان کے پوتے رفیق احمد خان اور نجیب اللہ خان سامنے براجمان۔
NA-72پر مظبوط دلیل کہ ضلعی تنظیم نے چالاکی سے انعا م ا للہ خان کا نام تیسرے نمبر پر تجویز کیا چنا نچہ بے بسی لا زم تھی ۔ اللہ نے بھرم کابھانڈہ پھو ڑنا تھا ۔بھکر کی تنظیم نے جو نام تجویز کئے وہ گلے کی چھپکلی بن گئے ۔نہ تھوک سکتے تھے نہ نگل سکتے تھے ۔تحریک انصا ف کا غیرسیاسی اور سطحی اشتہار دیکھ کر تکلیف ہو ئی ۔ تحریک انصاف جو بڑی پار ٹیوں کا باجا بجا سکتی تھی فقط ہو میو پیتھک تشہیر ہی کر سکی ۔
خا ن صا حب کو کئی سا لو ں سے یہ بات ذہن نشین کراتا رہا ہوں کہ ٹوتھ پیسٹ ، صا بن ، اور غذا ئی اجناس بیچنے والے ماہرین کا جہاں اور ہے جبکہ سیاست کے شا ہینوں کا جہاں اور۔یہ پنجاب یو نیور سٹی ، ہا رورڈ یا کیمبرج کی ڈگری سے نہیں آتی وگرنہ طالبان امریکیوں کا بھرکس نہ نکال سکتے ۔ اللہ کرے آنے والی آپ کی کیمپین متا ثر کن اور پیپلز پارٹی ، ن لیگ کا تیا پانچہ کر نے والی ہو ۔یہ تحریک انصا ف سے زیادہ بد قسمت قوم کی ضرو رت ہے ۔
تازہ ترین