• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بدل رہی ہے! اس بار کیا کایا پلٹ ہوتی ہے؟ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ مسلم دُنیا میں اگر ’’تبدیلی‘‘ ہوئی بھی تو پُرشکوہ ماضی کی جانب مراجعت سے۔ بھلا سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں مفتوحہ آیا صوفیہ کے بازنطینی گرجا گھر کی ایک عالمی عجائب گھر سے پھر سے مسجد میں تبدیلی سے بیت المقدس کی آزادی کی راہ کیسے ہموار ہوگی؟ ۔ ’’تبدیلی‘‘ کی بات چلی ہے تو پاکستان میں ’’تبدیلی راج‘‘ کے ہاتھوں ماضی کی آمرانہ روایات کی بحالی، مافیائوں اور مقتدرہ کی نو آبادیوں کی بالادستی کے ساتھ ساتھ ہاتھ آیا بھی تو ایک ایسا احتساب جسے عدالتِ عظمیٰ نے سیاسی انجینئرنگ کا بدنامِ زمانہ آلۂ کار قرار دے کر قابلِ احتساب محتسبوں کا پول کھول دیا ہے لیکن دُنیا بدل رہی ہے اور اس طرح کہ ماضی کا انسانیت کُش اور ماحولیاتی تباہی کا عالمی استعماری نظام ویسے چلنے سے رہا جیسا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے چلایا جا رہا تھا۔ راجر کوہن نے دی نیویارک ٹائمز میں لکھتے ہوئے امریکہ اور فرانس کی سیاسی نرگسیت پہ پھبتی کستے ہوئے خوب کہا ہے کہ امریکی اقدار ہوں یا فرانسیسی جمہوریہ کے دعوے، اب مقبول نہیں رہے کہ وہ اٹھارہویں صدی کی نوآبادیاتی، نسلی اور پدرشاہانہ روایت میں دھنسے رہ گئے ہیں۔ فرانس کا 1789کا انسانی و شہری حقوق کا اعلامیہ ہو یا پھر امریکہ کی آزادی کا اعلامیہ، اس میں کہا گیا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر آزاد اور مساوی ہیں اور انہیں زندگی، آزادی اور خوشیوں کے ناگزیر حقوق حاصل ہیں۔ اور ایسی آزادی جو دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے۔ گو کہ شاہی ختم ہوئی اور لبرل ڈیموکریٹک تجربے کا آغاز ہوا۔ لیکن یہ محض تمام سفید فام ملکیت داروں کے مابین مساوات ثابت ہوا جسے اب چیلنج کیا جا رہا ہے۔ مساوات کا درس دینے والے خود انسانیت سوزی اور غلاموں کی تجارت میں ملوث پائے گئے اور ان گناہوں کی معافی بھی نہ لی تاآنکہ جیفرسن کی طرح غلام داری نظام کے حامیوں اور مصلحوں کے مجسمے گرائے جانے لگے۔

منڈی کی نفع خور معیشت کا انہدام ہوا۔ عالمی سرمایہ داری کے سُرخیل امریکہ ہی کے ہاتھوں گلوبلائزیشن، آزاد تجارت، معیشت میں ریاستی عمل دخل اور ماحولیات کی کاربن زدہ معیشتوں سے بچائو کے امکانات کو معدوم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ نفع خوری میں اندھی کارپوریشنز کی پیداکردہ کیمیائی و نباتاتی کثافت کے ہاتھوں صحتِ عامہ کی تباہی اور خود کورونا (COVID-19)کی پیدائش، اس کے ہاتھوں لاکھوں جانوں کے زیاں اور ساری سماجی زندگی کی اُلٹ پلٹ نے نسلِ انسانی کا اور کرئہ ارض کی سلامتی کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ تمام تر توجہ انسانی سلامتی اور کرئہ ارض کی خیر پہ دی جاتی، امریکی سامراج کی تمام تر توجہ دُنیا پہ اپنے کمزور ہوتے ہوئے تسلط کو بچانے پہ مرکوز ہو گئی ہے۔ جس طرح اردوان کو اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے ڈرامہ رچانا پڑا، اُسی طرح صدر ٹرمپ کی کورونا کی وبا پر قابو پانے میں ناکامی سے جو سیاسی تذلیل ہوئی ہے، اُس پر پردہ ڈالنے کے لیے اُس نے تمام تر ملبہ چین پہ ڈال دیا ہے۔ اگلے صدارتی انتخاب سے قطع نظر، اصل خطرہ عالمی استعماری بالادستی کو ہے جس کے لیے امریکی مقتدرہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ دُنیا پر امریکی معاشی بالادستی کو اگر بڑا چیلنج درپیش ہے تو وہ چین سے ہے، جو اس دہائی کے آخر تک دُنیا کی بڑی معیشت بن جائے گا۔ نہ صرف صنعت و تجارت کے میدان میں بلکہ جدید تکنیکی، اطلاعاتی اور مصنوعی ذہانت کے میدانوں میں بھی۔ اس وقت امریکہ اور چین میں ایک خوفناک تجارتی و سفارتی جنگ جاری ہے، جو جلدی ختم ہونے والی نہیں۔ صدر ٹرمپ نے قومی اجارہ دار سرمایہ داری کو اولیت دیتے ہوئے جس طرح عالمگیریت کو سبوتاژ کیا ہے، اُس سے پورے کے پورے بعد از جنگِ عظیم دوم کے عالمی استعماری نظام کی چولیں ہل گئی ہیں۔ اب گلوبلائزیشن کا چیمپئن چین ہے اور آزاد تجارت کا مبلغ بھی۔ اس لیے بھی کہ عالمگیریت نے چین کو عالمی منڈی میں گھسنے دیا اور اب وہ دُنیا کی اشیا کی سپلائی کا 25 فیصد فراہم کرتا ہے۔ امریکی، جرمن، اطالوی، برطانوی، فرانسیسی سرمایہ کاروں کی بھاری سرمایہ کاری چین کی مرہونِ منت ہے۔ ٹیرف وار سے نقصان اُنہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہوگا جو چین کی منڈی سے دو طرفہ فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ اُس پہ طرہ یہ کہ کورونا سے چین کی معیشت ایک جھٹکا کھانے کے بعد پھر سے چل پڑی ہے۔

دریں اثنا نئی عالمی صف بندیاں ہو رہی ہیں جس کا بڑا مرکز ایشیا بحرالکاہل کا علاقہ بننے جا رہا ہے۔ چین اور بھارت میں مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول (LAC) میں حالیہ فوجی جھڑپوں نے بھی علاقائی صف آرائی کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔ ایل اے سی کے اِس یا اُس جانب خلاف ورزی پینگانگ کی جھیل اور وادیِ گلوان پہ چینی قبضے سے کوئی بڑے اسٹرٹیجک مفاد وابستہ نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ اکسائے چن پہ بھارت کے دعوے کو چینیوں نے سختی سے ردّ کر دیا ہے۔ البتہ چین بھارت مناقشے سے امریکہ کی چین مخالف علاقائی جتھہ بندی تیز ہو گئی ہے۔ آئندہ مہینوں میں بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان بحرِ ہند میں جنگی مشقیں کرنے جا رہے ہیں۔ عالمی منظر میں بھارت کی چینی حریف بننے کی حکمت خود اس کے اور خطے کے مفاد میں نہیں۔ چینی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ دُنیا اتنی بڑی ہے کہ دونوں ایشیائی قوتیں اپنا اپنا حصہ بٹور سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس محاذ آرائی سے خطے میں اسلحہ کی دوڑ اور تیز ہو جائے گی اور بھارت چین جھگڑے سے امریکہ فائدہ اُٹھائے گا۔ بھارت جس کا کہ جنوبی ایشیا پہ بالادستی کا دعویٰ تھا، وہ تجارتی میدان میں جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں چین کے مقابلے میں پسپا ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ ایران میں اُس کا بستر لپٹ گیا ہے اور وہاں چین 400ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے اور یوں گوادر اور چا بہار سِسٹر بندرگاہیں بن جائیں گی۔ یقیناً اس محاذ آرائی سے جہاں پاکستان کے سی پیک منصوبے پہ دبائو بڑھے گا، وہیں پاکستان پہ بھارتی دبائو کمزور پڑ جائے گا۔ اب علاقائی کھیل چین بھارت پاکستان کی تکون میں کھیلا جائے گا۔ دیکھتے ہیں کون صحیح پتے کھیلتا ہے اور عالمی تبدیلیوں سے فیضیاب بھی۔ دُنیا بدل رہی ہے، ہم بدلیں گے کہ نہیں!

تازہ ترین