• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے موجودہ گھمبیر اقتصادی بحران، داخلی سیاسی عدم استحکام اور انتظامی کنٹرول اور نااہلیت کے حوالے سے گورننس کی بڑی کمزوریوں کے باوجود محتاط Political intellectual calculationsیہ ہی واضح کر رہی ہیں کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ امید کی یہ کرن ہمارے قرب و جوار اور دنیا کے اہم ترین ممالک کی نظر میں (ان کے اپنے مفادات کے حوالےسے) پاکستان کی بڑھتی اہمیت سے پھوٹی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان فقط جنوبی ایشیا کا ہی نہیں بلکہ پاکستان افغانستان ایران اور گلف پر مشتمل ریجن، مشرق قریب(Near East) کا بھی اہم ملک ہے، پھر پوری دنیا کے لئے سنٹرل ایشیا کی لینڈ لاکڈ اسٹیٹس تک پہنچ کا گیٹ وے بھی۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد پاکستان کی اس نئی اہمیت و حیثیت کا ظہور ہوا جواب بالکل واضح ہوتی اور بڑھتی نتیجہ خیز ہو رہی ہے۔ سی پیک اس ہی کا عالمی مظہر ہے۔ کووڈ 19 کی وباسے پیدا ہونے والے عالمی بحران انٹرنیشنل ازم اور گلوبلائزیشن کے پراسس کو کم تر اورConnectivity اور Regional Arrangements کی اہمیت کو تیز تر کردیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر اور قراردادیں عملاً اپنی اہمیت کھو بیٹھنے کے باعث اب اقوام ان ہی عالمی رجحان میں پناہ لیتی نظر آ رہی ہیں اور اسی کو اپنی سلامتی اور اقتصادی استحکام کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت ملک ہے کہ یہ ایک ہی خطے (جنوبی ایشیا) میں شامل نہیں بلکہ تین خطوں میںشامل ہے۔ یعنی سنٹرل ایشیا کا گیٹ وےا ور نیئرایسٹ کا بھی کئی حوالوں سے سب سے اہم ملک ہے۔پاکستان کی حکومتوں، سلامتی کے جملہ اداروں ، سیاسی جماعتوں اور ماہرین خارجی امور پر تو واضح ہے کہ پاکستان کی اب (ظہور پذیر نہیں) بلکہ مکمل عیاں ہونے والی اہمیت کا بڑا فیصد بلوچستان کی جائے وقوع، اس صوبے پر مشتمل ہماری طویل اوشن بائونڈری، خصوصاً پاکستان چوڑےچکلے سینے (بلوچستان) کے بیش بہا طبعی جغرافیے سے وابستہ ہے۔ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستانی تاریخ میں ’’قائداعظم اور بلوچستان‘‘ ہماراایک اہم تاریخی حوالہ ہے۔ بابائے قوم نے اپنی گری صحت کا اندازہ کرتے آخری ایام کے سکون و آرام کے لئے خود زیارت کا انتخاب کیا تھا۔ آپ 5جولائی 1948کو زیارت پہنچے اور انتقال، گیارہ ستمبر تک وہیں قیام کیا۔ آپ نے پاکستان کی پہلی سالگرہ کا پیغام بھی وہیں سے دیا، جس میں فرمایا ’’قدرت نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے، آپ کے پاس لامحدود وسائل ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور پوری سکت کے مطابق کریں، سو آگے بڑھتے جائیں‘‘۔ اس سے قبل فروری 1948میں بھی صدیوں پرانے بلوچستان کے روایتی ’’سبی میلے‘‘ میں شرکت کی جہاں صوبے بھر کے بلوچ سرداروں اور میونسپلٹی کے آزاد ارکان نے خان آف قلات کے قیام پاکستان پر بلوچستان کے پاکستان میں شامل ہونے کی توثیق کی۔ واضح رہے کہ خان آف قلات احمد یار خان نے بلوچستان سے پاکستان کا الحاق کرتے ہوئے قائداعظم کو ان کے وزن کے برابر سونا نومولود مملکت کے خزانے کے لئے پیش کیا تھا۔ سبی میلے میں قائداعظم کی آمد پر پورے بلوچستان سے آنے والے شرکا کا ہجوم اتنا تھا کہ مزید کھانا جیکب آباد سے بھیجا گیا۔ قائداعظم نے پاکستان کو قدرت کےبخشے جن لامحدود وسائل کا ذکر قوم کو اپنے متذکرہ آخری پیغام میں کیا ان میں سے بیشتر آج تک زیر زمین اور ان کی بڑی مقدار بلوچستان میں ہی ہے۔ پاکستان نے اپنے تمام اقتصادی بحرانوں اور مسلسل سیاسی عدم استحکام کے باوجود ترقی تو کی ہے، ایٹمی طاقت بھی بن گیا لیکن ہماری بدستور اقتصادی اور سماجی پسماندگی غالب ہے۔ پھر یہ متحد رہا نہ موجود پاکستان میں ہم وہ ترقی کر سکے جس کا اشارہ ’’سکت برابر‘‘ یعنی بمطابق پوٹینشل بابائے قوم نے کیا۔ ہم نے آئین و قانون کی عدم پیروی اور گورننس میں نااہلی اور آلودگی کے بڑے بھاری قومی خسارے بھگتے ہیں۔ اب جبکہ دنیا پاکستان کی طرف اہم ترین حوالوں سے دیکھ رہی ہے۔ وقت آگیا ہے پوٹینشل کو سمجھا اور استعمال میں لایا جائے۔

بھاشا دیامر ڈیم کی تعمیر کا کنٹریکٹ ایوارڈ ہونے اور اس پر کام کے عملاً آغاز کے بعد قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کا یہ اعلان تازہ ہوا کا ایک اور بڑا جھونکا ہے کہ ’’بلوچستان میں مکمل امن اور ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے‘‘۔ وقت آگیا ہے کہ قائداعظم کے قوم کو آخری پیغام جو انہوں نے بلوچستان سے ہی انتہائی بیماری کے عالم میں دیا تھا کو بطور ’’قومی پالیسی‘‘کے بنیادی نکتے کے، موجودہ اور آنے والی ہر حکومت اختیار کرے۔ مستقبل قریب ہی نہیں پاکستان کا مستقبل بھی تابناک ہونے کے امکانات کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا ایک بنیادی تقاضا بلوچستان کی ترقی ہے جس کی سب سے بنیادی ضرورت صوبے کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں توازن اور بلوچستان کے ہر دو شعبوں کی ترقی میں صوبے کے عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو ہر حال میں ممکن بنانا ہے۔ بغیر کسی رکاوٹ ترقی جاریہ کی یہ ہی ضمانت ہے۔ اس کے لئے بلوچستان کی گورننس کو شفاف بنانا اور اس کی کیپسٹی بلڈنگ میں وفاق اور پاکستان کے ماہرین نے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ بلوچستان پر حکومت کو بلوچ عوامی نمائندگان اور وہاں کے اہلِ دانش سے مل کر فقط ترقیاتی پیکیج نہیں دور رس پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔ بلوچستان کے پوشیدہ خزانوں تک رسائی حاصل کرنی ہے۔ اوشن بائونڈری (ساحل) کو ڈویلپ کرنا ہے۔ سب سے بڑھ کر تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کے حوالے سے صوبے کے صدیوں اور پاکستان بننے کے بعد عشروں سے محروم و مقہور عوام کی زندگیاں انصاف اور اہلیت سے بدلنی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں میں ہی نہیں پارلیمانی پراسس، سیاسی ابلاغ اور میڈیا ایجنڈے میں بھی بلوچستان کی جگہ اور شرکت کو بڑھایا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین