• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام پر منفی اثرات

ہیپاٹائٹس، جگر کا عارضہ ہے،جس کی کئی اقسام ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پوری دُنیا میں تقریباً سوا کروڑ سے زائد افراد اس مرض سے متاثر ہیں اورچھے لاکھ کے لگ بھگ لقمۂ اجل بن چُکے ہیں،جب کہ پاکستان کی کُل آبادی کا تقریباً ڈھائی فی صدحصّہ ہیپاٹائٹس کا شکارہے۔حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دُنیا بَھر میں تقریباً 328ملین افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہیں،جب کہ ہر سال ان کے سبب 1.3ملین افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 

نیز، دُنیا بھر میں جگر کے سرطان کی بنیادی وجہ بھی ہیپاٹائٹس کی یہی دونوں اقسام یعنی بی اور سی ہی ہیں۔واضح رہے کہ جگر کا کینسردُنیا بھر میں ساتویں نمبر پر شمار کیاجاتا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہیپاٹائٹس کی شرحِ اموات ایڈز اور ملیریا سے ہونے والی ہلاکتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے،اس کے باوجود عالمی سطح پر اس مرض کےپھیلاؤ پر قابو پانےپرکوئی خاص توجّہ نہیں دی گئی۔تاہم،2016ء میں عالمی ادارۂ صحت نے ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیےایک عالمی حکمتِ عملی وضع کی،جس کے تحت 2030ء تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کاہدف مقرر کیا گیا۔اس ہدف کی تکمیل کے نتیجے میں دُنیا بَھر میں متاثرہ افراد اور شرح ِاموات میں بالترتیب90 اور 65فی صد کمی واقع ہو سکتی ہے۔

ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیےپاکستان میں ’’ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام‘‘ کا اجراء کیا گیا،جس کے مختلف حصّے ہیں۔مثلاً تشخیص، علاج معالجہ، ہیپاٹائٹس بی کی ویکسی نیشن، عطیۂ خون کی جانچ، والدہ سے نومولود میں ہیپاٹائٹس کی منتقلی روکنے اور مرض کے پھیلائو پر قابو پانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا وغیرہ۔ہمارے یہاں ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب میں علاج کے غیر محفوظ طریقے، انجیکشنز، ڈرپس، غیر معیاری انتقالِ خون وغیرہ شامل ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی تقریباً 5فی صد آبادی ہیپاٹائٹس سی اور 2.5فی صد ہیپاٹائٹس بی سے متاثر ہے،جب کہ80فی صد سے زائد افراد کو یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ ہیپاٹائٹس کاشکارہیں، جس کی بنیادی وجہ اس مرض سے متعلق آگاہی کا فقدان اور اسکریننگ ٹیسٹ نہ کروانا ہے۔

گزشتہ7ماہ سے دُنیا بَھر میںکورونا وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے اورآئے روزصحت ِعامہ کے نئے چیلنجز کاسامنا کرناپڑ رہا ہے۔ یہی نہیں، عالمی سطح پر معیشت بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور صحت سےمتعلق کئی پروگرامز بھی التوا کا شکار ہوگئے ہیں،جن میں ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام بھی شامل ہے۔اصل میںفی الوقت ایک تو دُنیا بَھر کے محققین کی توجّہ اس نئے وائرس کاعلاج اور ویکسین دریافت کرنےپر مرکوز ہے، دوم ،سماجی دُوری، قرنطینہ اورصحت مراکز میں جانے کےخوف کی بنا پر بھی ہیپاٹائٹس کے نئے مریضوں کی اسرینگ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پھر رضاکارانہ سرگرمیوں میں کمی بھی تشخیص و علاج پر اثر انداز ہورہی ہے۔ 

دوسری طرف کورونا وائرس کےپھیلاؤ پر قابو پانے کے لیےصحت کے کئی حفاظتی مراکز بندبھی کردئیے گئے ہیں۔دراصل ان مراکز میں تعینات عملے کوکورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیےکووڈ-19 کےمخصوص سینٹرز میں منتقل کیا گیا ہے ۔ ان ہی وجو ہ کے سبب ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے لگوانے کی شرح میںواضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے،جو ہیپا ٹائٹس بی کی شرح میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔حکومتِ پاکستان نے اکتوبر 2019ء میں قومی ہیپاٹائٹس اسٹرٹیجک فریم ورک کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کو کام یاب بنانے کے لیے وفاق اور صوبوں میں باہمی رابطے،مل جُل کر جدوجہد ، مضبوط مالی سرمایہ کاری نظام، سیاسی وابستگی اور تیکنیکی مہارت ناگزیرہے۔ 

اب جب کہ ہیپاٹائٹس سی کا ایک کام یاب علاج ممکن ہے، جس سے90فی صد سے زائدمریض اس وائرس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکوں سے بھی مرض کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہورہی ہے،تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور علاج کی طرف خصوصی توجّہ دی جائے۔ ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام پر سختی سے عمل درآمد ہو اور اس ضمن میںوفاق اور صوبوں کو مسلسل جدوجہد کرنا ہوگی،بصورتِ دیگرموجودہ حالات میں2030ءتک ہیپا ٹائٹس کا خاتمہ ناممکن نظر آتا ہے۔

(مضمون نگار، معروف گیسٹرو انٹرولوجسٹ ہیں اور ضیاء الدین یونی ورسٹی اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین