حبس کا موسم جاری ہے جس میں ہر ذی روح کو سانس گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ہمارے ماحول میں جو گھٹن ہے اس کا عرصہ دہائیوں پہ محیط ہے، لوگ لو کی دعائیں مانگ کے بھی بے حال ہو چکے لیکن حبس ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہا لیکن کہتے ہیں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، گزشتہ چند دنوں میں حبس کے شکار پاکستانیوں کے لیے باد صبا کےوہ جھونکے آئے ہیں کہ ان کے مرجھائے چہرے کھل اٹھے اور ان کی آنکھوں میں امید کے دئیے روشن ہو گئے ہیں، حبس زدہ ماحول میں پہلی رم جھم تب دیکھنے کو ملی جب وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پہ ان کے مشیروں اور معاونین خصوصی کو اپنے اثاثوں اور ذاتی کوائف سے متعلق تفصیلات ظاہر کرنا پڑیں اور یہ انکشاف ہوا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنے والے کسی معاون خصوصی نے امریکہ، کسی نے برطانیہ تو کسی نے کینیڈا سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، پاکستانی قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے والوں میں کسی کی جیب میں امریکہ، کسی کی سنگاپور تو کسی کی جیب میں کینیڈا کا گرین کارڈ پڑا ہے، قوم کو بیرون ملک اثاثے واپس لانے کا درس دینے والے دنیا کےمختلف بر اعظموں میں اربوں روپے کی جائیدادوں اور کاروبار کے مالک ہیں، لوگوں کو ٹیکس جمع کرانے کا بھاشن دینے والے خود انکم ٹیکس ریٹرن تک فائل نہیں کرتے، دوسروں سے منی ٹریل مانگنے والے کل تک سرکار کے ملازم رہنے والے آج اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینیں کوڑیوں کے مول خرید کران کے مالک بنے بیٹھے ہیں، گھٹن کے اس ماحول میں باد صبا کا جھونکا تب ہی محسوس ہو گیا جب عوام نے دہری شہریت اور اربوں روپے کے اثاثوں کی منی ٹریل مانگنا شروع کر دی، جن سے آج تک کسی کو سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی ان سے ایسے استفسار کیا گیا کہ مسلسل تین دن تک سوشل میڈیا پہ ٹرینڈ بنا رہا، اسی طرح سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی طرف سے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کے متعلق جاری کردہ تفصیلی فیصلہ بھی پاکستانی قوم کے لیے حبس زدہ ماحول میں خوشگوار پھوار ثابت ہوا، ملک کی اعلیٰ عدالت کے معزز ججز نے احتساب کے نام پہ ملک میں جاری بد ترین انتقامی کارروائی کا پردہ ایسے چاک کیا کہ اسے سیاسی انجینئرنگ، وفاداریاں تبدیل کرانے، سیاسی جماعتوں کو توڑنے، مخالفین کا بازو مروڑنے اور انہیں سبق سکھانے کے لیے استعمال کرنے کا آلہ قرار دیا، اسی فیصلے میں کہا گیا کہ ایک طرف لوگوں کو مہینوں اور برسوں جیل میں رکھ کر سزا دی جاتی ہے تو دوسری طرف بڑے مالی الزامات پہ بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، عوام کی نظر میں نیب کی ساکھ اور غیرجانب داری مجروح ہو چکی، معزز جج صاحبان نے واضح کیا کہ مہذب معاشروں میں کسی کو مجرم قرار دینے کے بعد سزا شروع ہوتی ہے، عدالت عظمی نے دو پارٹیوں کے سول لین دین کو زمینوں پہ ناجائز مقدمہ بنانے پہ بھی سخت تحفظات ظاہر کیے، سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کا یہ فیصلہ میر شکیل الرحمٰن جیسے ان متاثرین نیب کی بھی فتح ہے جو گزشتہ چار ماہ سے زائد عرصے سے چونتیس سالہ پرانے سول مقدمے میں پابند سلاسل ہیں، اس فیصلے نے پاکستانی عوام کے لیے امید کی یہ کرن بھی پیدا کی ہے کہ حبس چاہے جتنا بھی بڑھ جائے اسے ختم ہونا ہی ہوتا ہے، اس موسم میں جہاں سانس لینا بھی دشوار ہو وہاں اختلاف رائے کے ذریعے آزادی اظہار کرنے والے سر پھرے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے بعد عوامی و سماجی اداروں کے دباؤ پہ صرف بارہ گھنٹوں میں رہائی بھی کسی خوشگوار ہوا کے جھونکے سے کم نہیں، پاکستان چونکہ صحافیوں کے لیے دنیا کے پانچ خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے اس لیے یہاں صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کو معمول سمجھا جاتا ہے، جہاں ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو بغیر کسی ایف آئی آر کے اٹھا کے بند کر دیا جائے وہاں مطیع اللہ جیسے کسی بھی صحافی کو دن دیہاڑے اغوا کرنے والوں کا بے خوف ہونا فطری عمل ہے لیکن اس اغوا پہ جیسے صحافیوں، میڈیا کے اداروں سمیت ملک کے مختلف طبقات نے متحد ہو کر آواز بلند کی، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں نے پاکستانیوں کی اس آواز میں اپنی آواز ملائی اس نے حبس کے اس موسم کے جلد خاتمے کی نوید سنا دی ہے۔ مطیع اللہ کے اغوا کے مقدمے میں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا اس نے بھی گھٹن کے اس ماحول میں آکسیجن کا کام کیا ہے، اس فیصلے میں چیف جسٹس نے انسانی آزادی کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ کسی بھی شہری کا اغوا یا جبری گمشدگی سنگین اور ناقابل برداشت جرم ہے،ریاست کا صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کا تاثر آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے اور ایسا تاثر چاہے غلط ہو یہ پیغام دیتا ہے کہ جرم کا مقصد آزادی اظہار کو دبانا ہے تاکہ اس سے دوسرے بھی سبق سیکھیں، آزادی اظہار کو دبانے کے اس خوف یا دھمکی کے عوام، معاشرے اور جمہوریت پہ اثرات مرتب ہوتے ہیں، چیف جسٹس مزید لکھتے ہیں کہ کوئی معاشرہ صحافیوں کے خلاف ایسے جرائم کے ذریعے سچ کی آواز کو دبا کر ترقی نہیں کر سکتا،اس فیصلے نے یقینا جبر کے شکار میڈیا اور صحافیوں کو یہ امید دی ہے کہ سرنگ کے آخری سرے پہ روشنی موجود ہے، گزشتہ چند دنوں میں رونما ہونیوالے یہ چار واقعات حبس زدہ ماحول کے تبدیل ہونے کی علامت ہیں، وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی سے عوام کی باز پرس جہاں حبس کے ہاتھوں ناتواں جسموں میں طاقت پیدا ہونے کی نشانی ہے وہیں خواجہ برادران کی ضمانت کا سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ دم گھٹتے موسم میں ہوا کا ٹھنڈا جھونکا ہے، مطیع اللہ کے اغوا پہ ہر طبقے کا رد عمل جہاں بے جان ہوئے معاشرے کے انگڑائی لینے کی عکاسی کر رہا ہے وہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ باد صبا کی مانند ہے جوپیغام دے رہی ہے کہ حبس کا موسم بس ختم ہونے کو ہے۔