• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جون2019میں خبر آئی تھی کہ ہالینڈ کی حکومت نے ایک نئے قانون کی تیاری کا حکم دیا ہے، جس کے تحت تارکین وطن کو ہالینڈ میں رہنے کیلئے انتہائی سخت امتحان پاس کرنا ہو گا اس نئے قانون سے ہالینڈ میں مقیم کم از کم پانچ لاکھ مسلمانوں کو سخت مشکلات پیش آ سکتی ہیں ،پھر حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ نیا قانون( سعادت حسن منٹو والا نہیں) تارکین کے امور سے متعلق وزیر اور وزارت خارجہ نے تیار کر کے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا ہے۔ اس قانون کے تحت ہالینڈ میں رہنے والے تارکین کو ہالینڈ کی تاریخ و جغرافیہ زبان اور ثقافت کے بارے میں اور ان شعبوں سے متعلق معلومات پر مبنی سخت ٹیسٹ دینا ہو گا (جو برطانیہ میں رائج ٹیسٹ سے بھی مشکل ہے) اس ٹیسٹ کیلئے تارکین کو چھ سو گھنٹوں کے کورس میں شرکت کرنا ہو گی اور پانچ سال کے اندر کورس ختم نہ کرنے پر یا امتحان میں ناکام رہنے والوں کو سالانہ سات یورو جرمانہ کیا جا سکتا ہے اور ملنے والی مراعات میں کمی یا رہائشی پرمٹ منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ نیا قانون تیار کرنے والی کمیٹی کے سربراہ نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ یہ ٹیسٹ مساجد کے اماموں کو بھی دینے کا پابند کیا جائے گا جبکہ یورپی یونین کے تمام شہری ٹیسٹ سے مستثنیٰ ہوں گے۔

گزشتہ دنوں ہالینڈ کی حکومت نے یورپ میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستانیوں کیلئے مخصوص قانون کی منظوری دے دی ہے۔ اخبار کے مطابق ہالینڈ آنے والے پاکستانی باشندوں کو ویزہ لینے کیلئے ڈچ( ولندیزی) زبان سیکھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق نئے قانون کے تحت ہالینڈ میں رہائشی کوئی پاکستانی اپنی بیوی منگیتر بچوں یا خاندان کے کسی فرد کو ہالینڈ بلواتا ہے تو اس امیدوار کیلئے بھی ڈچ زبان سیکھنا لازمی ہو گا علاوہ ازیں اسے اسلام آباد (پاکستان) میں ڈچ ایمبسی میں ٹیسٹ پاس کرنا ہو گا۔ ناکامی کی صورت میںاسے ویزا جاری نہیں کیا جائے گا ۔ہالینڈ میں مقیم پاکستانی تارکین نے اس نئے قانون پر شدید احتجاج کیا ہے جبکہ پاکستانی سفارت خانہ حسبِ معمول، حسبِ روایت اور حسبِ عادت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔پاکستانیوں کا موقف ہے کہ پاکستان میں ڈچ زبان سیکھنے یا سکھانے کا کوئی ادارہ یا انسٹی ٹیوٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے ڈچ زبان سیکھنا بے حد دشوار ہے، ان کا کہنا ہے کہ ڈچ ایمبیسی کے ساتھ حکومت پاکستان کو بھی مدد کیلئے آگے آنا چاہئے۔

ادھر ہالینڈ کے ہمسایہ ملک بلجیم میں بھی لندن بم دھماکوں کے بعد صورتحال کشیدہ ہو رہی ہے، تارکین میں خوف وہراس پایا جاتا ہے ،گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ حکومت بلجیم نے ملک کو دہشت گردی سے بچانے کیلئے ’’ٹم ٹم اور ایکسٹرا آپریشن‘‘ کے نام سے نئے قوانین پر باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے جن کے تحت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامیہ کو مکمل اختیارات حاصل ہوں گے، کہ وہ کسی کو بھی گرفتار کر کے تفتیش کر سکیں بلکہ اگر جرم ثابت ہو جائے تو ڈی پورٹ کرنے کے بھی اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح ہوائی اڈوں پر امیگریشن کنٹرول کرنے والوں کو پہلے سے کہیں زیادہ اختیارات دے دیئے گئے ہیں، تاکہ وہ کسی کو بھی شک و شبہ ہونے پر ملک میں داخلے سے روک دیں یا کسی ملزم یا مجرم کو باہر جاتے ہوئے گرفتار کر سکیں( اب تارکین وطن کو ملک سے باہر جانے سے پہلے اپنے واجب الادا بلوں کی ادائیگی ضروری بنا دی گئی ہے )علاوہ ازیں برطانیہ نے فرانس اور بلجیم کے بعد اپنا سرحدی کنٹرول وسیع کرنے کیلئے ہالینڈ سے بھی اپنے مذاکرات مکمل کر لئے ہیں اس سے برطانوی امیگریشن افسروں کو ہالینڈ کی سرزمین پر مسافروں کی سفری دستاویزات کی پڑتال کے اختیارات مل گئے ہیں اس طرح ہالینڈ، بلجیم اور فرانس سے غیر قانونی تارکین وطن کی برطانیہ آمد کو روکا جا سکے گا،اس قانون کے تحت یورو سٹار سے آنے والے تمام مسافروں کی پڑتال کی جارہی ہے ،رواں سال سیاسی پناہ کیلئے آنے والے نو سو افراد کو روکا گیا ہے، 90 فیصد سیاسی پناہ کی درخواستوں میں کمی آئی ہے ۔حال ہی میں انسانی اسمگلروں کے منظم گروہوں کو قابو کیا گیا ہے، دو گروہوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا ہے۔برطانیہ بلجیم کے تعاون سے ان انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک پر مکمل قابو پا چکا ہے کیونکہ بلجیم میں بھی انٹری اب اتنی آسان نہیں رہی، حکومت بلجیم نے شہریت کے قوانین مزید سخت کر دیئے ہیں۔ اس سے قبل تین سال سے سات سال تک بلجیم کے قانونی طور پر مقیم افراد شہریت کیلئے درخواست دے سکتے تھے جبکہ اب عرصہ دس سال سے مقیم افراد ہی درخواست دینے کے مجاز ہوں گے، علاوہ ازیں اس سے قبل زبان پر عبور کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی جبکہ یہ قانون بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔اب لکھنا ،پڑھنا اور بولنا ازحد ضروری بنا دیا گیا ہے۔ایک خبر جو میں آپ کے علم میں لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلے دنوں بلجیم کے شمال میں ایک ٹائون نے ان مسلمان خواتین پر جرمانہ کرنا شروع کر دیا ہے جو پبلک میں روایتی برقع اوڑھتی ہیں اب تک پانچ خواتین کو ایک سو یورو تک جرمانہ کیا گیا ہے اس برقع کو ٹائون کے مقامی میئر نے ’’تقسیم کرنے والا اور جبر‘‘ قرار دیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین