لندن (مرتضیٰ علی شاہ) ایک برٹش پاکستانی ڈاکٹر جسے اس کی ڈاکٹر بیوی کے ہمراہ ہسپتال میں اپنے بچے کے بیڈ کے قریب حملہ کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس نے دوسروں کو امتیازی سلوک اور نفرت سے بچانے کے لئے لب کشائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ڈائو میڈیکل کالج کراچی سے گریجویشن کرنے والے دونوں میاں بیوی راشد عباسی اور عالیہ عباسی کو نارتھمبریا پولیس نے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ اپنی 6 سالہ بیٹی زینب کے پاس ہسپتال میں اس کے بیڈ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ لوکل ڈاکٹرز یہ چاہتے تھے کہ وہ کمرے سے باہر چلے جائیں تاکہ بچی کو مرنے کے لئے اس کی زندگی بچانے والی مشین کو ہٹا لیا جائے۔ جوڑے نے سکاٹش سرحد کے نزدیک کائونٹی درھم میں اپنے مکان پر جیو اور جنگ کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے آگاہ کیا۔ برطانوی اور بین الاقوامی میڈیا پر اس ہفتہ وسیع پیمانے پر شائع ہونے والی خوفناک فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار پولیس اہلکار کس طرح پاکستانی ڈاکٹر کو اس کی بیٹی کے بیڈ کے قریب سے گھسیٹتے ہوئے لے گئے، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال کر بری طرح مارا پیٹا جبکہ مقامی ہسپتال کا سٹاف جوڑے کو کمرے سے باہر نکالنے کے لئے پولیس کو طلب کرنے کے بعد موقع پر موجود رہا۔ ڈاکٹر راشد عباسی نے بتایا کہ پولیس نے پہلے ان کی بیوی پر حملہ کیا پھر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ 6 سالہ زینب کو شازونادر ہونے والی انتہائی خراب حالت کے باعث پیچیدہ ضروریات درپیش تھیں اور ڈاکٹروں نے جوڑے سے کہا تھاکہ بچی چند گھنٹے کی مہمان ہے۔ ٹھیک ایک سال قبل بچی اپنے والدین کو زبردستی ہٹائے جانے کے ایک ہفتہ بعد چل بسی تھی۔ واقعہ کی رپورٹنگ کے حوالے سے پابندیاں عائد تھیں اور جوڑے نے ایک پیچیدہ قانونی جنگ لڑی تاکہ دنیا کو اس واقعہ سے آگاہ اور پولیس سے فوٹیج لی جا سکے۔ نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) ہاسپیٹل نے قانونی وجوہات کے باعث مذکورہ ڈاکٹروں کے نام نہیں بتائے تاہم اس نے کہا ہے کہ پولیس کو ملوث کرنے کے فیصلہ کو کسی بھی صورت ہلکا نہیں لیا گیا۔ ڈاکٹر عباسی نے زینب کی حالت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ خامرہ کی غیر موجودگی میں ہونے والے اس مرض (نیمن پک) میں ذہنی پسماندگی کے علاوہ جگر، لمف فوڈ اور تلی بڑھ جاتی ہے، دو سال کی عمر میں سوائن فلو کے اثرات کے بعد 2018 میں متعدی انفیکشن سے اس کے پھیپھڑے متاثر ہوئے تھے۔ ڈکٹروں نے جوڑے کو ہدایت کی تھی کہ یہ بہتر ہوگا کہ اسے مرنے دیا جائے کیونکہ اس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ بہر کیف انہوں نے کہا کہ جوڑے نے دو مرتبہ ڈاکٹروں سے کہا کہ انہیں زینب کا علاج کس طرح کرنا چاہئے، دونوں مواقعوں پر اس میں بہتری آئی مگر ڈاکٹروں نے اپنے تجزیئے میں اس کی مزاحمت کی۔ گزشتہ سال جوڑے نے ڈاکٹروں سے کہا کہ اس کو ابھی وینٹی لیٹر سے نہ ہٹائیں کیونکہ اس کی صحت میں بہتری آ رہی ہے۔ بچی کو 2019 موسم گرما میں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور نارتھ ایسٹ انگلینڈ میں فیملی کے لوکل ہسپتال میں لائف سپورٹ پر رکھا گیا۔ انہوں نے جیو نیوز کو بتایا کہ ہم پر حملہ سے قبل زینب نے اپنی پسند کے تین ٹی وی شوز دیکھے تھے۔ وہ میرا ہاتھ تھام لیتی تھی اور ضرورت پڑنے پر اپنی آنکھوں اور ہاتھوں کی حرکت سے بات کرتی تھی۔ ڈاکٹر عباسی اور ان کی اہلیہ جو کہ این ایچ ایس میں سنیئر سرجنز ہیں، انہوں نے ڈاکٹروں کے ساتھ 25 منٹ کی ملاقات کی جس میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ بچی کو وینٹی لیٹر سے ہٹا لیں گے۔ ڈاکٹر عباسی نے کہا کہ وہ جانتے تھے کہ ڈاکٹروں نے وینٹی لیٹر ہٹانے کے لئے اپنا ذہن بنا لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بچی کو دی گئی لائف سپورٹ ہٹا لی۔ ڈاکٹر ان کی بات نہیں ماننا چاہتے تھے، اسی لئے انہوں نے ہمیں بچی کے پاس سے ہٹانے کے لئے پولیس کو بلا لیا۔چند منٹ میں نارتھمبریا پولیس کے چار افسران وہاں پہنچے جب وہ بچی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے تھے جبکہ ڈاکٹر عالیہ عباسی اور جوڑے کا نوجوان بیٹا دوسری جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ پولیس نے ان سے بچی کو چھوڑ کر چلے جانے کے لئے کہا، ڈاکٹر راشد عبا سی نے پولیس کو بتایا کہ وہ این ایچ ایس ڈاکٹر ہیں اور اپنے حق سے آگاہ ہیں، پولیس کو یہ قانونی اختیار نہیں کہ انہیں بچی کو چھوڑ کر جانے کے لئے کہے کیونکہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور پیرنٹس ہونے کی وجہ سے وہ بچی کے پاس ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے جیو اور جنگ کو بتایا کہ وہ بچی کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ وہ ڈاکٹر بچی کی لائف سپورٹ ہٹا دیں گے اور انہوں نے بالکل اپنی خواہش کے مطابق کیا۔ ہاسپیٹل سٹاف نے پولیس سے غلط بیانی کی کہ میں نے ان کے کام میں خلل ڈالا اور میرا رویہ جارحانہ تھا۔ یہ سچ نہیں ہے۔ ڈاکٹر عالیہ کی جانب سے پولیس سے یہ درخواست کرنے پر کہ میرے شوہر کو یہاں سے نہ ہٹایا جائے، پہلا پولیس اہلکار ڈاکٹر عالیہ کو گھسیٹے ہوئے فلور پر لے گیا۔ ڈاکٹر عالیہ عباسی نے بتایا کہ مجھے کہا گیا کہ میں نہ بولوں کیوں کہ یہ میرا نہیں بلکہ میرے شوہر کا مسئلہ ہے۔ مجھے کرسی پر دھکیل دیا گیا، ایک مسلم خاتون، ایک خاتون حتیٰ کہ ایک شہری کی حیثیت سے بھی انہوں نے میرا احترام نہیں کیا۔ انہوں نے طاقت کے ذریعے سے میرا بازو پکڑ کر کھینچا کہ مجھے انجری کے باعث طبی امداد لینی پڑی۔ ڈاکٹر عالیہ عباسی نے بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ کس طرح ان کے شوہر کو گھسیٹ کر فرش پر پھینکا گیا اور پولیس نے ان کے ساتھ بد سلوکی کی۔ جب میں نے مدد کے لئے چیخ وپکار کی تو انہوں نے درمیان میں پردے کھینچ دیئے تاکہ میں یہ نہ دیکھ سکوں کہ میرے شوہر کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ تاہم میں اپنے شوہر کی چیخیں سن سکتی تھی جس سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ میرے شوہر پر تشدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے میرے شوہر پر تشدد کرتے ہوئے انہیں ’’جانور‘‘ کہا۔ میں نے پولیس کو بتایا کہ وہ دل کے مریض ہیں مگر انہوں نے نہیں سنا، وہ سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے بے دردی کے ساتھ میرے شوہر کو پیٹا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے پولیس کو انہیں میڈیسن دینے کے لئے کہا مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ ایک افسر نے کہا کہ اگر میرا سلوک ٹھیک رہا تو ہم انہیں دوا دے دیں گے۔ ڈاکٹر عباسی نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے گھٹنوں اور کہنیوں سے ان کی چھاتی، پیٹ، ٹانگوں پر ضربات لگائیں۔ انہوں نے اس طرح ضربات لگائیں کہ وہ کیمرے میں نہ دیکھی جا سکیں۔ تاہم کیمرے کی 11 منٹ کی فوٹیج پوری کہانی خود بتا رہی ہے۔ نارتھمبریا پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں ہسپتال سے ایک کال موصول ہوئی تھی کہ ایک شخص سٹاف سے زیادتی کر رہا ہے اور اس نے کنسلٹنٹ پر بھی حملہ کیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہم ایک سول کلیم کا جائزہ لے رہے ہیں اس لئے اس مرحلہ پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔