• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طیبہ شیریں

”دیکھو بیٹا! محنت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، اگر تم محنت کرو گے تو دنیا کی ہر چیزحاصل کر سکتے ہو۔ ”محنت سے جی چرانے والا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ تم جو چیز محنت سے حاصل کرو گے، اس کی قدر کا اندازہ بھی تمہیں ہوگا“احمد کی امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا، مگر احمد وہیں کا وہیں بیٹھا کمپیوٹر پرگیم کھیلتا رہا۔ اس پر امی کی باتوں کا گویا کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔

احمد اپنے والدین کا اکلوتا چشم چراغ تھا۔ سب ہی گھر والے اس سے بہت پیار کرتے تھے۔وہ جو فرمائش کر تاس کے گھر والے اسے لازمی پورا کردیتے تھے۔ وہ اسے ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ یوں تو احمد بہت ہی پیارا بچہ تھا، مگر بہت سست اورکاہل تھا۔ وہ محنت سے جی چراتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہر چیز اسے بغیر محنت کےحاصل ہوجائے۔

احمد ذہین ہونے کے باوجود پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ اپنا ہوم ورک وہ بے دلی سے مکمل کرتا تھا۔ اسکول جانےکواس کا دل نہیں چاہتاتھا۔، آرام طلبی کی وجہ سے اسکول کی کئی چھٹیاں ہوجاتی تھیں۔ گھر والے اس کی اس حرکت سے بہت پریشان تھے۔ سب اسے سمجھا چکے تھے، مگر وہ ایک کان سے سنتا دوسرے سے نکال دیتا تھا۔

ایک دن اسکول سے واپسی پر احمد کے کچھ دوستوں نے اس سے کہا کہ آج ہمارے ساتھ کھیلنے چلو، مگر اس نے منع کردیا۔ ارشد نے اسے کہا بھی ”استاد جی نے کہا تھا ہمیں اپنے دماغ کے ساتھ ساتھ اپنی جسمانی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے، ویڈیو گیمز سے دماغ بوجھل ہوتا ہے “ ۔مگر احمد نے صاف انکار کردیا اور دوستوں کو خیر باد کہہ کر گھر کی طرف چل دیا۔

امتحانات کو کچھ روز باقی تھے۔ سب بچے خوب محنت کر رہے تھے۔ احمد کا دل پڑھائی سے مکمل طور پر اچاٹ ہوگیا تھا۔ وہ بوجھل دماغ کے ساتھ کتابوں کو تکتا رہتا تھا۔ جب ارشد اس کو اپنے ساتھ پڑھنے کا کہتا تو وہ اکثر اُسے ٹال دیتا تھا ۔ میں تو ایک دن پہلے سب یاد کر کے امتحان دے دوں گا۔ ارشد نے اس سمجھایا بھی کہ ایسے امتحان نہیںدیا جاتاا اس کے لیےپڑھنا بھی پڑتا ہے۔

بالآخر ایک دن امتحانات سر پر آن پہنچے۔ احمد نے بہت کوشش کی،مگر اس کو سمجھ ہی نہیں آرہاتھا کہ وہ کیا یاد کرے اور کیا نہیں۔ اس پریشانی میں پوری رات وہ نہ پڑھ سکا اور نہ ہی ٹھیک سے سو سکا۔ اسی طرح احمد نے پیپر تو دے دیے ،مگر اس معلوم تھا کہ وہ فیل ہوجائے گا۔ اس نے پیپرکی ٹھیک سے تیاری نہیں کی تھی۔جب رزلٹ آیا تو احمد کا نام لسٹ میں سب سے نیچے تھا۔ وہ بری طرح فیل ہوگیا تھا۔ اس بات پر گھر میں بھی احمد کو خوب ڈانٹ پڑی۔ 

اس دن سے وہ چپ چپ رہنے لگا تھا۔ ایک دن دادا نے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ ”کیا بات ہے بیٹا آج کل بہت چپ رہنے لگے ہو؟ “۔ احمد جو اتنے دن سے اپنے دل ہی دل میں اداس تھا رو پڑا۔ ”کیا کروں دادا جان؟ میں نے بہت پڑھا تھا،پر مجھے نہ تو یاد ہوا اور نہ میں پیپر میں کچھ لکھ پایا“ اس پر دادا جان نے کہا ” ایسا نہیں کہ تم نے یاد کیا اور وہ یاد نہیں ہوا، بلکہ تمہارا طریقہ ٹھیک نہیں تھا، کیا تم نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی سنی ہے ، خرگوش کولگتا تھا کہ وہ کچھوے سے جیت جائے گا، مگر وہ ہار گیا کیونکہ وہ سست او رکاہل تھا، آرام کرنے کے لیے رک گیا ، جبکہ اس کے مقابلے میں کچھوا اگرچے کمزور تھا، اس کی چال دھیمی تھی ،مگر وہ محنتی تھا۔ نہ وہ رکا اور نہ آرام کیا بلکہ اپنے ہدف کی جانب بس چلتا رہا اس لیے وہ کامیاب ہوا اور ریس جیت گیا تھا“۔

دادا جان کی بات سن احمد کو اپنے وہ الفاظ یاد آگئے تھے جو اس نے اپنے دوستوں سے کہے تھے۔ میں ایک رات میں ہی سب یاد کر لوں گا اور وہ نہیں کر پایا ۔ اب اسے سمجھ آگیا تھا کہ وہ سستی سے انسان ہمیشہ ہارتا ہی ہے۔ اس نے دادا جان سے وعدہ کیا اب وہ کبھی بھی سستی اور کاہلی نہیں دیکھائے گا۔ اگلے ہی روز سے احمد نے پھر سے اپنی کلاس میں پڑھائی کا آغاز کردیا۔ اس بار احمد کلاس کے سب سے بہترین اسٹوڈنٹس میں سے تھا۔ سال کے اختتام پر احمد نے نہ صرف پہلی پوزیشن حاصل کی تھی بلکہ کم چھٹیاں ہونے کی وجہ سے احمد نے اسٹوڈنٹس آف دی ایئر بھی حاصل کیا تھا۔

تازہ ترین