• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک نہیں، پاکستان میں انیک لوگ سیاست کی باریک بینی سے واقف نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ ایک کے بعد ایک سیاسی غلطی بار بار دہراتے ہیں۔ ایک ہی طرح کے سیاست دانوں کو منتخب کرواتے ہیں۔ ان کو اسمبلیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ ان کو حاکم بنوا دیتے ہیں اور پھر ان کے ماتحت بن کر زندگی روتے پیٹتے گزار دیتے ہیں۔ سیاست کی باریک بینیوں سے ناواقف ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ووٹ کے بل بوتے پر سیاست دان اسمبلیوں میں جا کر بیٹھتے ہیں۔ ہم اپنے ووٹ کے ذریعے ان کو ایم این اے اور ایم پی اے بن بیٹھنے کی ملازمت دلواتے ہیں۔ ایک لحاظ سے وہ ہمارے ملازم ہوتے ہیں۔ سیاست کی باریک بینیوں سے بے خبر ہم لوگ اپنے ہی ملازموں کو اپنا حکمراں بنا دیتے ہیں۔ کیا کریں ہم ہیں انیک بونگے۔ سیاست کی گتھیاں ہم سے نہیں سلجھتیں۔

فاسٹ بالر کو سمجھنا سب کیلئے مشکل ہوتا ہے۔ کوچ، کپتان اور سلیکٹر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ اگر کوئی من چلا بیٹس مین فاسٹ بالر کی گیند پر چھکا لگا دے تو کوئی نہیں جانتا کہ فاسٹ بالر کی اگلی حکمت عملی کیا ہوگی۔ کچھ من چلے بیٹس مینوں نے حال ہی میں ایسے چھکے اور چوکے لگائے کہ ہمارے کپتان فاسٹ بالر کی ٹیم ہی تتر بتر کردی۔ اب کوئی کچھ نہیں جانتا کہ کپتان فاسٹ بالر کی نئی حکمت عملی کیا ہوگی۔ کیا وہ گڈلینتھ سے بائونس کریں گے اور من چلے بیٹس مینوں کے ہیلمٹوں میں کریک اور ڈینٹ ڈال دیں گے؟ کوئی کچھ نہیں جانتا۔ کوچ اور چیف سلیکٹر ہکا بکا رہ گئے ہیں۔سیاسی سوجھ بوجھ سے نابلد ہم لوگ اتنا تو جانتے ہیں کہ کپڑے لتے کی صنعت سے آپ زرمبادلہ کماتے ہیں۔ کھیلوں کا سامان اور سرجیکل سامان بنانے والی صنعت سے آپ زرمبادلہ کماتے ہیں۔ تعمیراتی صنعت سے آپ زرمبادلہ کیسے کما سکتے ہیں؟ ہم سیاسی سدھ بدھ سے ناآشنا ہوں گے ۔لیکن اوورسیز پاکستانی Over Seas Pakistani ورکرز کا نام سنتے ہی ہمارے بونگے بھیجے میں بیرون ملک روزی روٹی کی تلاش میں کام کرنے والے مزدور، تغاریاں سر پر اٹھانے والے، اینٹیں ڈھونے والے، ترخان، راج، مستری، پلمبر ذہن میں آتےہیں۔ ہم بونگے سوچتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا سرمایہ ہونا امکان سے باہر ہے کہ وہ پاکستان میں زرمبادلہ سے سرمایہ کاری کر سکیں۔ ہم بونگوں کے ذہن میں مایوس کن سوچ اس لئے آتی ہے کہ ہم سیاسی باریک بینیوں سے واقف نہیں ہیں۔ آپ نے فاسٹ بالر کو تنگ کیا ہے۔ اب آپ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ آپ چاہے کتنے ہی اچھے بیٹس مین کیوں نہ ہوں، آپ کے ہیلمٹ کے پرخچے اڑنے والے ہیں۔ آپ اپنے سر اور سر میں رکھے ہوئے بھیجے کی خیر منائیں۔ بھیجا فرائی پاکستانیوں کی پسندیدہ ڈش ہے۔

بیرون ملک پاکستانی ورکرز میں ارب پتی اور کھرب پتی پاکستانی یورپ اور امریکہ میں پنجے گاڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم سیاسی بونگے کچھ نہیں جانتے کہ ان پاکستانیوں کے پاس بیشمار دولت کہاں سے آتی ہے۔ جب مصدقہ معلومات نہیں ملتیں، تب افواہوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ وہ لاس ویگاس امریکہ کے بدنام زمانہ نائٹ کلبس اور جوا خانوں کا شہزادہ ہے۔ وہاں اس کا جادو چلتا ہے۔ اگر شہزادہ کسی طرح بلڈنگ کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرمایہ لگانے پر راضی ہو جائے تو مراعات کے مطابق پاکستان میں کوئی اس سے نہیں پوچھے گا کہ اس قدر بے تحاشہ دولت اس کے پاس کہاں سے آئی ہے۔ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے۔ ہم پینسل، دوات اور کاغذ پر بھی لفظ حلال واضح طور پر لکھتے ہیں۔ تعمیراتی صنعت میں لگنے والا زرمبادلہ اس پابندی سے مستثنیٰ ہے۔ اگر آپ کے پاس جوا اور سٹہ بازی میں کمائے ہوئے بے تحاشہ ڈالر اور پائونڈ ہیں تو پھر آپ بے دھڑک اپنا سرمایہ پاکستان میں تعمیراتی صنعت میں لگا سکتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے بذات خود آپ سے وعدہ کیا ہے کہ ذرائع آمدنی کے بارے میں کوئی آپ سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔ ذرائع آمدن چاہے کچھ بھی ہو، تعمیراتی صنعت کے تحت بننے والی تمام عمارات پر لفظ حلال نمایاں کر کے لکھا جائے گا۔

ہمارے ایک اور بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی یعنی اوورسیز ورکر Over Seas Warker اسپین میں بیلوں سے متعلق کھیل تماشوں کے زبردست پروموٹر ہیں۔ ایک ایک بل فائٹ سے اربوں ڈالر کمالیتے ہیں۔ سنا ہے کہ ہمارا وہ بیرون ملک ہم وطن اربوں کھربوں ڈالر، پائونڈ اور یورو Construction Industry میں لگا رہا ہے۔ اسے تحریری طور پر یقین دلوایا گیا ہے کہ اس سے ذرائع آمدن کے بارے میں کوئی ادارہ کچھ نہیں پوچھے گا۔ وہ اگر چاہے تو ایک اسپینی طرز کا شہر بنا سکتا ہے۔ وہ مجاز ہوگا کہ اسپینی طرز کے شہر میں نائٹ کلب، پب، بار اور بل فائٹنگ کے لئے اسٹیڈیم بنوائے۔ ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے کے لئے اسے اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی ٹورازم انڈسٹری چلائے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کیلئےدلفریب پیکیج دے کر بلائے۔ہمارے ایک اوور سیز مشیر آج کل ان تمام بیرونی ممالک کے دورے پر ہیں جہاں البیرونی جا چکے ہیں۔ وہ بیرون ملک کام کرنے والے اور روٹی روزی کمانے والے پاکستانی ورکرز کو یقین دلوانے گئے ہیں کہ وہ دل کھول کر پاکستان کی نئی نویلی تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کریں۔ کسی ادارے کے چیتے ان سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کریں گے۔ پندرہ برس تک آپ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ آپ سے انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کا تقاضا نہیں کیا جائے گا۔ آخری خبریں آنے تک مشیر صاحب تغاری میں ریتی بجری اٹھانے والے کسی ایک بھی اوورسیز ورکرز سے نہیں ملے ہیں۔ وہ ان اوورسیز پاکستانیوں سے مل رہے ہیں جو روزی روٹی کی تلاش میں بیرون ملک آنے والے پاکستانی ورکرز کو اپنا ذاتی ملازم رکھتے ہیں اور ان سے پاسپورٹ چھین کر اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں۔ ان باتوں کی سوجھ بوجھ ہم بونگوں کو اس لئے ہے کہ یہ سب کچھ سیاست نہیں ہے۔ کچھ اور ہے۔ ورنہ ہم بونگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔

تازہ ترین