جب بھی کوئی ملک یا ریاست وجود میں آتی ہے تو اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے اس کے پیچھے کوئی اسباب و واقعات ہوتے ہیں۔ کچھ تکالیف ہوتی ہیں جن سے لوگ چھٹکارا چاہتے ہیں۔ کسی مخصوص صورتحال سے نکلنے کے لئے آزادی چاہتے ہیں تاکہ جن تکالیف کا سامنا انہیں ہے وہ آزادی حاصل کرنے کے بعد نہ ہو۔ اس تناظر میں اگر نظریہ پاکستان دیکھیں تو عجیب سی بات لگتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ کوئی نظریہ امریکہ یا نظریہ چین یا نظریہ برطانیہ یا نظریہ بھارت کہے تو عجیب سا لگتا ہے۔ ہم نے دراصل نظام کی بات کو مبہم کردیا ہے اور نظریئے کا عَلم اٹھا لیا ہے اور نظریہ کو نظام سے علیحدہ کرکے مذہب کے ساتھ جوڑ دیا ہے اسی لئے آج تک نظریہ پاکستان کسی کو سمجھ نہیں آیا۔ نہ ہی آسکتا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے دانشوروں سے لیکر عوام تک سبھی اس کلاس کے ہاتھوں میں استعمال ہوتے آرہے ہیں جو نظام کی بات نہیں کرنا چاہتی بلکہ عوام کو نظریہ کی چکر میں الجھا کے رکھنا چاہتی ہے۔ اس لئے یہ نظریہ پاکستان کا مسئلہ جب تک پاکستانہے نہ تو حل ہوسکتا ہے نہ ہی کوئی اس کا متفقہ مفہوم بنا سکتا ہے۔کیونکہ آج بنیادی طور پر یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ پاکستان کسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا۔ کسی نظریئے کے لئے نہیں اس کا مقصدایک خوشحال معاشرے کا قیام تھا۔ جہاں وسائل پر سب کی دسترس ہو اور اپنے ہر طرح کے عقائد رکھنے اور انہیں پریکٹس کرنے کی آزدی ہو۔ جہاں ریاس سب کے عقائد کا تحفظ کرے گی۔ہر ریاست کا یہ بھی اولین فرض ہوتا ہے کہ مشترکہ قومی وسائل پر عوام کے حق کا تحفظ کرے اور جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بنیادی ضروریات کی عوام تک رسائی کو یقینی بنائے۔ اصل میں یہی مقصد پاکستان ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو کسی نظریہ پاکستان کی بات یا بحث موجود نہیں تھی۔ نہ ہی ریاست چلانے کے لئے کوئی واضح نظام کا خاکہ (Blue print ) موجود تھا ۔ پھر یہ اسلامی نظام، نظام مصطفیٰ یا شریعت کے نفاذ کی بات کہاں سے آگئی۔ یہ کب تے نظریہ پاکستان کی اصطلاح لوگوں کے ذہنوں پر مسلط ہوگئی ہے۔ اس وقت کے مسلم لیگ کے منشور یا تحریک پاکستان کے دوران یا پاکستان بننے کے بعد تک نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ پھر یہ نظریہ پاکستان کب ایجادہوا۔ یہ ایک تاریخی بات ہے جس کے کئی گواہان آج بھی زندہ موجود ہیں۔ کیونکہ 1946ء کے انتخابات جیتنے کے بعد بھی مسلم لیگ آزاد ہندوستان میں ڈھیلے ڈھالے کنفیڈریشن کی حامی تھی۔ جہاں وہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں ہندو بالادستی سے مسلمانوں کے لئے آئینی ، معاشی اور سیاسی تحفظ چاہتی تھی۔ مسلم لیگ کی بیشتر قیادت کے ذہنوں میں اس وقت تک آزاد پاکستان کا مطالبہ متبادل کے طور پر موجود تھا۔ 1946 ء میں ہر مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن کی شراکت اقتدار کی پیش کش بھی مان لی تھی۔ جس کے تحت ہندو اور مسلم صوبوں کو اپنی اپنی امنگوں کے مطابق رہنے کی گارنٹی مل رہی تھی۔ لیکن جناح ایسا ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ نہ ہی ادھر کانگریس مضبوط مرکز پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر راضی تھی۔ اس لئے مسلم لیگ کو اپنے علیحدہ ملک بنانے کے مطالبے پر کھڑا ہونا پڑا۔ اس تاریخی گتھی کا ذکر تو ضمناً کیا ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نظریہ پاکستان (Ideology Of Pakistan ) کی بات کہاں سے اور کب ہماری سیاست میں گھس آئی۔ قرارداد مقاصد ملک حاصل کرنے کے دو سال بعد منظور ہوئی۔ نظریہ پاکستان نہ تو اس وقت اصطلاح اور نعرے کے طور پر موجود تھا۔ نہ ہی 1956 ء کے آئین میں یہ داخل ہوا۔ نہ یہ 1962ء کے ایوب خان کے آئین میں اس کا کوئی تذکرہ ہے۔یہ دراصل جنرل یحیٰی کے زمانے اس وقت نظریہ پاکستان کی اصطلاح متعارف کروائی گئی جب جنرل یحییٰ کے اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات و قومی امور جنرل (ر) شیرعلی خان کو یہ کام سونپا گیا۔ جنرل شیرعلی خان جماعت اسلامی ک طرف اپنے جھکاؤ کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ اس نے نظریہ پاکستان کا خیال متعارف بھی کروایا اور نافذ بھی کیا۔ اس وقت جماعت اسلامی کے چیف میاں طفیل محمد نے بیان بھی دیا کہ وہ فوجی حکمرانوں کی آنکھوں میں محبت اسلام کی چمک دیکھ رہے ہیں۔ بعد میں جنرل ضیاء نے جس طرح اسلام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اسے قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ ہم پاکستانی مذہب کے نام پر اتنے حساس ہیں کہ ایک دفعہ کوئی مذہبی شک وہ درست ہو یا غلط لیکن اگر آئین کا حصہ یا قانون بن گئی۔ پھر کوئی مائی کا لعل اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ خواہ ہم اس قانون کی وجہ سے جہالت سے اندھیروں میں ہی کیوں نہ غرض ہو جائیں سلمان تاثیر کے قتل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو صاحب نے بھی جنرل شیر علی کی اس اختراع کو خوب استعمال کیا اور نیپ کے لیڈروں پر غداری کا مقدمہ بنا۔ حیدرآباد کیس کے نتیجے میں نیپ کالعدم قرار دی گئی۔ولی خان کو غدار پاکستان کہا گیا۔ دراصل یہ نظریہ پاکستان کی بحث اور اس پر مخصوص پوزیشن ہماری Ruling Elite کو Suit کرتی ہے۔ تاکہ جب بھی ملکی وسائل پر عوام کی حصہ داری کی بات ہونے لگے تو اسے نظریہ پاکستان کے شور تلے دبا دیا جائے اور عوام اس بحث میں الجھتے اور لڑتے مرتے رہیں کہ نظریہ پاکستان کیا تھا اور اس کے تحت کیسے غدار وطن اورکیسے محب وطن قرار دینا ہے۔ پنجاب میں کہاوت ہے کہ”پانی وچ مدھانی پھیرے دے رہو، مدھانی وی چلدی رہیگی کے مکھن وی نئیں بنے گا“ یہی ہمارے لوٹ کھسوٹ ٹہلے کی سیاست اور نظریہ کی لب لباب ہے۔ ہندوستان کی دونوں بڑی پارٹیوں کی Bourgeoisie کا تقسیم اقتدار پر شدید اختلاف تھا۔ جس نے تقسیم ہند میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانوی استعماریت میں اتنی سکت باقی باقی نہیں تھی۔ کہ وہ اس متحارب بورژوازی کو ایک ہندوستان میں اپنے تابع رکھ کے حکومت چلا سکے اور پھر قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت بھی نظریاتی طرز Ideologicl Type کی نہیں تھی۔ بلکہ گذشتہ دنوں پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے ریٹرننگ آفیسرز امیدواروں سے جو سوالات پوچھ رہے تھے۔ اگر قائداعظم کو بھی ایسے سوالات کئے جاتے اور نظریہ پاکستان کا پوچھا جاتا تو سو فیصد یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف نا اہل اور فیل ہو جاتے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اینٹی ریاست نظریات رکھنے پر ان پر غداری کا مقدمہ بھی قائم کردیا جاتا۔ جولائی 1947ء میں ہندوستان کے مذہبی حلقے پر یہ بات عیاں ہوچکی تھیکہ جناح انگریزوں سے مذاکرات کے دوران پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے حوالے سے کوئی شک شامل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر راب لاک ہرٹ نے ایک خفیہ رپورٹ میں 9 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بتایا کہ صوبہ سرحد کے مقامی لیگی لیڈر جناح کے واضح الفاظ میں شریعت کے نفاذ سے انکار پر اس کے خلاف ہوچکے ہیں یہ بات برطانیہ کے ریکارڈ میں جناح پیپرز ولیم 4 صفحہ 462 پر درج ہے۔ اس لئے اس وقت رائج نظریہ پاکستان سے اختلاف یا اتفاق بہر حال ہمیں پاکستان کا شہری اور محب وطن شہری ہونے میں مانع نہیں ہے۔ وفاداری وجود پاکستان اور آئین سے ضروری ہے۔ اور آئین پاکستان کو بھی جناح کی قائم کردہ بنیادوں پر قائم کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ موجودہ آئین بھی اسی نظریہ پاکستان کے رنگ میں رنگا جا چکا ہے۔ جس کا ہم ابھی ذکر کرچکے ہیں۔ مزید غور طلب امریہ بھی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی آئیڈیالوجی اور جمہوریت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ہمارے ہاں بہت سے دانشور عام کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ دنیا میں دو ہی نظریاتی ریاستیں ہیں ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل، اسرائیل تو جمہوری مملکت نہیں ہے۔وہاں انتخابات میں صرف کسی یہودی کو ہی چنا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کی تقریباً 90 لاکھ کی آبادی میں 10 فیصد عیسائی اور 15 فیصد مسلمانوں کی جمہوری عمل میں کوئی وقتعت نہیں ہے۔ ہم بھی اگر اپنی پاکستان میں رہنے والی آبادی کو اقلیتوں میں تقسیم کرکے ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں (جو کہ ہم کرتے بھی ہیں) تو پھر جمہوریت کا نعرہ لگاا بند کردینا چاہئے اور فرقہ واریت والے نظریہ پاکستان کا عَلم بلند رکھنا چاہئے، اللہ اللہ خیر سلا۔