احسن احمد اشک
یاد ہے وہ نورو ظلمت کا تصادم یاد ہے
کفرو باطل کا وہ طوفان و تلاطم یاد ہے
جھونپڑے میں قصر میں محل و شبستاں میں لہو
شہر میں،جنگل میں، صحرا میں بیاباں میں لہو
مسجدوں میں، مقبروں میں، خانقاہوں میں لہو
مذہب و ملت کی سانسوں میں،نگاہوں میں لہو
کٹ چکی ہے صبح آزادی کی خون آشام رات
تم بھلا سکتے ہو دل سے اس کے خونیں واقعات
اس طرح اپنے لہو کو میں نے ارزاں کردیا
غنچۂ اُمید کو تیرے گلستاں کردیا