آج کل سابق صدر پرویز مشرف کا تذکرہ کئے بغیر کوئی صحافیانہ تحریر مکمل نہیں ہوتی۔ حالانکہ ان سے متعلق روز کوئی نیا معاملہ پیش نہیں آتا۔ بہرحال
چل مرے خامے بسم اللہ
سابق صدر صاحب کئی بڑے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خدا کسی پر برا وقت نہ ڈالے۔ جب برا وقت آتا ہے تو عموماً اکیلا نہیں آتا۔ طرح طرح کے اضافی اور غیر اضافی۔ یعنی غیر متعلق… مسائل کا طومار ساتھ لاتا ہے۔
ناطقہ سر برگریباں کہ اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے
آخری خبروں کے مطابق وہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے ہوئے اور وہاں انہوں نے کوئی بیان بھی دیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی بیان دینا ہی تھا مگر ایسے بیان عموماً خبریہ کہلاتے ہیں۔ جب عدالت میں لائے جائیں تو ہمیشہ نہ سہی عموماً کوئی قابل قبول گواہی نہیں سمجھے جاتے۔ بس کبھی کبھی پولیس ان سے کچھ اپنے مطلب کی باتیں نکال لیتی ہے۔ سو یہ ضرور ہو رہا ہو گا۔ کوئی تفصیل ابھی سامنے نہیں آئی۔ اور آ بھی جائے تو ہم لکھنے والے اس سے کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ اس کا کچھ کہا نہیں جا سکتا، تو آئیے سابق صدر صاحب کے مقدماتی معاملات کا بے صبری کے ساتھ انتظار کریں۔ کبھی کسی شاعر کا یہ شعر بڑا مقبول تھا۔ پہلے عشقیہ کے علاوہ دوسرے بہت سے معاملات میں نقل کرنے کے کام آتا تھا۔
پہلے بھی تھا انتظار آج بھی ہے انتظار
اور ترا انتظار دیکھئے کب تک رہے
اللہ معاف کرے۔ بعض اوقات کسی پر زوال آتا ہے تو جہتوں میں پھیل جاتا ہے۔ بس دعا کیجئے کہ انتخابات مقررہ وقت پر اور پُرسکون طریقے سے ہو جائیں۔ مدتوں بعد عام انتخابات کا موقع ملا ہے۔ اللہ کرے یہ موقع ضائع نہ ہو۔ آمین
مگر معیشت
سیاست میں تو جو ہونا تھا سو ہو رہا ہے۔ ایک پس ماندہ معاشرے کی سیاست بھی عموماً پس ماندہ ہوتی ہے۔ اس پر تبصرے میں کتنی ہی احتیاط اور عقل مندی سے کام لیا جائے (اگر اللہ نے عقل دی ہے تو) بے شمار غیر متعلقہ اور تیسرے درجے کے مسائل کا بیچ میں در آنا ایک طرح ناگزیر ہو جاتا ہے اور ہمیشہ نہیں تو اکثر یہ غیر متعلق اور تیسرے درجے کے مسائل ہی زیادہ عوامی اور قومی توجہ کھا لیتے ہیں۔ بعض اوقات اس حد تک کے (عوامی) ذہن ماؤف ہو جاتا ہے… تو پھر یہ بے چارہ کالم نگار کیا کرے۔ اپنی طرف سے کوئی نئی بات تو پیدا کر نہیں سکتا۔ وہ بہترین صورت ہو گی جب عوامی ذہن یعنی ذہین عوام خود مسئلے کی تہہ میں جا کر سوچے۔ مگر یوں بھی ہر مسئلے کی تہہ میں جانا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس پر سوچنا تو اور بھی مشکل۔ تو پھر عام آدمی کیا کرے؟ وہی جو وہ کرتا ہے یعنی سوچ بچار کچھ بڑوں پر چھوڑ دے۔ ظاہر ہے ہمیشہ نہ سہی عموماً وہ کچھ بڑے اچھے اختلاف خیال کے سبب کسی معقول مقام تک پہنچ کر کچھ کہنے کے قابل بنے۔
دوسری بلکہ ایک طرح اہم تر بات جو خواہ یاددہانی سمجھی جائے یہ عرض کرتی ہے کہ ہم نے قومی معیشت پر مسلسل سوچنا اور اپنی سوچ کا اظہار کئے جانا کیوں کم کر دیا ہے۔ کیا ہماری معیشت ترقی کرنے لگی ہے جو ہم اس کی طرف سے کسی قدر ہی بے نیاز ہو جائیں۔ قطعی نہیں۔ مجھے تو کوئی ترقی نظر نہیں آئی۔ کسی محترم لکھنے والے کو بھی نظر نہیں آتی۔ پھر یہ کیا قصہ ہے۔
کچھ خیال اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
بہرحال میں اور مجھ جیسے بہت سے محترمین اس صورت حال کو نظر انداز نہیں کر رہے۔ نظر انداز کر ہی نہیں سکتے۔ پھر ہم سب مل کر اپنی روز بروز تباہ تر ہوتی معیشت پر کوئی بھرپور قسم کی توجہ کیوں نہیں دیتے۔ اور اس کا اظہار کیوں نہیں کرتے۔ سچ کہ ”مفادات پیوستہ“ ہماری نہیں سنتے۔ چلئے نہ سنیں۔ ہم تو تاریخ کے ریکارڈ پر رہیں گے۔ یہ زمانہ پرانے بے زبان زمانوں کی طرح نہیں ہے۔ اور… اور آخر یہ قومی اسمبلی ہمارے کس مرض کی دوا ہے۔ یہ اپنا بیشتر وقت بے معنی بے فائدہ سیاسی نظر آنے والی باتوں میں کیوں ضائع کر رہی ہے۔ آپ سب اس کی کارروائی ملاحظہ تو کرتے ہی ہوں گے۔ خود دیکھ لیجئے کہ اس کے ”مباحث“ میں کتنا وقت پاکستان کے درد ناک اور بے شرم اقتصادی مسائل کو دیا جاتا ہے۔ کیا یہ ”مفادات پیوستہ“ کی بے شمار استحصالی ریشہ دوانیوں کا ایک اہم جزو نہیں ہے؟ نہیں تو پھر کیا ہے۔ ہے تو پھر ہم کیا کر رہے ہیں؟
”معیار“ 9
جیسا کہ بیشتر قارئین جانتے ہوں گے یہ ”بین الاقوامی یونیورسٹی“ اسلام آباد کا جریدہ ہے۔ میرے زیر مطالعہ نواں معیار ہے جو جنوری تا جون 2011ء پر محیط ہے۔ اس میں 43 عنوانات کے تحت پانسو اکتیس صفحات میں نظم و نثر کا بہت اہم مواد ہے اور آخر میں اس شمارے کا انڈیکس بھی دیا گیا ہے (جبکہ اسے سب سے پہلے ہونا چاہئے تھا) ابتدائیہ میں ایک بہت اہم اور دل چسپ سوال لکھا گیا ہے۔
”کیا پاکستانی جامعات میں تحقیق کا معیا رتسلی بخش ہے“۔ پھر ایک فقرے میں ایک جواب بھی۔ یعنی ”اس سوال کا جواب اثبات میں دینا مشکل ہے“۔ تو گویا ہماری جامعات میں (عموماً) تحقیق کا معیار غیر تسلی بخش ہے۔ (اچھا، اگر یوں ہے تو پھر یہ تحقیق ہو ہی کیوں رہی ہے۔ اس تحقیق پر سیکڑوں طلبا کا وقت اور روپیہ اور جامعات کا وقت اور روپیہ کیوں ضائع ہوئے چلا جاتا ہے۔
”اردو کا مستقبل؟“
ابتدائیہ میں ایک بہت اہم اور قومی نوعیت کا سوال بھی کیا گیا ہے۔ آئیے وہ چند سطریں مبینہ دہرا دیں۔
”پاکستان میں اردو اگرچہ آئین کی رو سے قومی زبان ہے لیکن اردو کو دفتری زبان بنانے کے لئے ہمارے قومی نمائندوں نے جو منفی کردار ادا کیا ہے ان کی روداد ”معیار“ کے گزشتہ شماروں میں چھپ چکی ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے قومی نمائندوں کا ”نفاذ اردو“ کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق اردو کو قومی زبان کی بجائے دوسری پاکستانی زبانوں کے ساتھ شامل کر کے سب کوپاکستانی زبانیں کہا گیا ہے اور تجویز کیا گیا ہے کہ جب تک یہ زبانیں ترقی یافتہ صورت اختیار نہیں کرتیں انگریزی متبادل زبان کے طور پر دفاتر میں رائج رہے گی“۔
محترم ”معیار“ نے اپنی رائے بھی دی ہے۔ اللہ اسے جزا دے۔ وہ رائے ملاحظہ کیجئے۔
”اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے اور اس کی ابھی تک کوئی ممانعت بھی نہیں ہوئی تو پاکستان میں اردو کے نفاذ کے امکانات ہمیشہ کے لئے معدوم ہو جائیں گے۔ اردو سے محبت رکھنے والوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے“۔
میرا بھی اندازہ ہے کہ ہماری اسمبلی کی اکثریت کی مجموعی دانشCollective Wisdom ابھی اتنی ذلیل نہیں ہوئی کہ اس قرارداد کو منظور کر لے بلکہ میں تو اس امر پر حیران ہوں کہ ہماری قومی اسمبلی میں ایسی قرارداد پیش ہی کیسے ہوئی۔ بہرحال یہ اراکین کا حق ہے کہ وہ کوئی بھی قرارداد پیش کریں۔ لیکن یہی حق ہمارے محترم بھارتی دوستوں کو بھی ہے (اور ہمیشہ سے ہے) مگر اس میں سے کسی نے آج تک ایسی ہمت نہیں کی۔ عموماً بڑی سے بڑی اور پرانی سے پرانی اسمبلیوں میں ایسی قراردادیں پیش نہیں ہوتیں جو بالکل بدیہی ہوں مگر جن کے امکانات طوالت سارے مسئلے کو ہی الجھا دیا کریں۔ چلئے۔ یہ بھی سہی۔ یہ منظور تو قطعاً نہیں ہونی چاہئے لیکن اس سے الجھن بڑھے گی کم نہیں ہو گی۔ ہماری قومی قرارداد صرف یہ ہونی چاہئے کہ قومی زبان اردو کو جلد سے جلد سرکاری دفاتر میں نافذ کرنے کے انتظامات تیز اور تیز تر کئے جائیں اور بس۔ ظاہر ہے کہ جب تک یہ نہ ہو جو زبان اب چل رہی ہے وہی چلتی رہے گی اگر خدانخواستہ وہ ہندی بھی ہوتی تو چلتی رہتی کیونکہ زندگی کو تو جب تک قیامت نہ آئے چلتے ہی رہنا ہے۔ خدا جانے ہم ایسی فضولیات پر قومی ایوان میں بحث کو بھی کیوں ضروری قرار دینے لگے ہیں۔ اللہ ہمیں معاف کرے۔ اگر ہم کوئی قوم ہیں تو ہماری کوئی قومی زبان بھی ہو گی۔ بحمد للہ وہ ہے اور یہ ایک تاریخی اتفاق ہے کہ اس کا نام اردو ہے جس کے معنی کسی مذہب و مسلک یا قومی ارتقا کے خلاف نہیں۔ خدارا یہ زمانہ غیرضروری باتیں ایسے اہم اور قیمتی ایوان میں نہ لائی جائیں۔ اردو عملاً ہماری قومی زبان بن چکی۔ آج نہیں تو کل سرکاری زبان بھی بن جائے گی۔ انشاء اللہ