سپریم کورٹ کی جانب سے جی آئی ڈی سی سیس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا جو 78 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے جو 30 صفحات پر مشتمل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا اپنے اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ جی آئی ڈی سی سیس ایک فیس ہے، ٹیکس نہیں، اسے منی بل کے طور پر پاس نہیں کرایا جاسکتا۔
اس گراؤنڈ پر سپریم کورٹ 2011ء میں اس قانون کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے، جو کہ توانائی، صنعت، ٹرانسپورٹ، ٹیکنالوجی، زراعت اور انفرا اسٹرکچر کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ابھرتی معیشت جہاں طرزِ زندگی بہتر بنا رہی ہو وہاں توانائی کی فراہمی ضروری ہے، ملک میں ابھی بھی قدرتی گیس کی قلت ہے۔
قدرتی گیس کی قلت اورطلب کے درمیان خلا پر کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مقامی قدرتی گیس مجموعی توانائی کی سپلائی کا 38 فیصد ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان 4 ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس پیدا کر رہا ہے، 295 ارب روپے 10 سال میں جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہوئے۔
وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 6 ماہ میں قانون سازی کرے، اگر 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہو سکے تو جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھا ہونے والا فنڈ واپس کرے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی مد میں 295 ارب روپے اکٹھے کیے گئے، گیس پائپ لائن منصوبے کو بنانے کا کوئی نشان نہیں ملا۔
لگتا ہے کہ حکومتِ پاکستان گیس پائپ لائن کے ان منصوبوں کو مکمل کرنے ارادہ ہی نہیں رکھتی، لگتا ہے کہ قدرتی گیس کی قلت قطر سے درآمد شدہ ایل این جی سے پوری کی جا رہی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ مقننہ اور انتظامیہ دونوں فنڈز کو استعمال کرنے سے متعلق عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھیئے: جی آئی ڈی سی سیس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
جسٹس منصورعلی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ میں اکثریتی فیصلے سے مکمل اختلاف کرتا ہوں کہ اس معاملے پر حکومت کا قصور نہیں، کیا حکومت اس ایکٹ کے معاملے کو قانون بنانے کیلئے پارلیمنٹ لے کر گئی۔
حکومت جی آئی ڈی سی معاملے پر سالانہ رپورٹ اور پراجیکٹس کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ناکام رہی، اگر اس معاملے کو بر وقت پارلیمان میں لے جایا جاتا تو آج نتائج مختلف ہوتے۔
اختلافی نوٹ کے مطابق پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا، حکومتی اقدامات کو جانچنا ہے، پارلیمنٹ کا کام پبلک سیکٹر میں حکومتی معاشی سرگرمیوں کا احتساب کرنا ہے۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور نے مزید کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ کام بھی ہے کہ وہ عوامی مسائل پر بات کرے، عوام پر خرچ کیے گئے پیسوں کی جانچ پڑتال کرے۔
جسٹس منصورعلی شاہ کی جانب سے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں پارلیمنٹ سے معلومات چھپانا بدترین عمل ہے، حکومت پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔