• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:محفوظ النبی خان

ایک جانب پہلی جنگ عظیم جاری تھی،بعد ازاں جس کے نتیجہ میں ایمپائرزEMPIRESکا وجودخطرے میں تھا،دوسری جانب ر وس میں بالشویک انقلاب کے ذریعے بالآخر سوویت جمہوریائوں کی ایک یونین قائم ہورہی تھی اور بہ نظر غائر ایک نئے نظام کے ساتھ درحقیقت ایمپائر ہی وجود پا رہی تھی۔پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے نتیجے میںجس پہلی ایمپائر کے حصے بخرے ہوئے وہ مسلمانوں کی سلطنتِ عثمانیہ تھی اور یہاں جنگ عظیم کے فاتح ممالک برطانیہ اور فرانس کی ریشہ دوانیوں سے مقامی آبادی پر مشتمل قومی ریاستیں تشکیل پذیر ہوئیں ،البتہ ان خطوں کی مقامی آبادی کی جانب سے ان کی قومی شناخت کی خواہش کی تکمیل بھی مضمر تھی۔سلطنت عثمانیہ جس میں پورا مشرق وسطی اور افریقہ کاایک بڑا خطہ شامل تھا ، یہاں قومی ریاستوں کے نام پر نیم نو آبادیاتی نظام مسلط ہو گیا ۔درحقیقت دوسری جنگ عظیم کے نتیجہ میںبرطانوی،فرانسیسی،پرتگالی اور ڈچ کا سامراجی تسلط ٹوٹ گیا اور سب سے پہلے بر صغیر جنوبی ایشیا میں برطانوی نو آبادیات بھارت اور پاکستان کے نام سے ریاستیں معرضِ وجود میں آئیںاور یہ سلسلہ تادیرچلتا رہا۔


پاکستان کا قیام غٰیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کی کی قومی ریاست کے طورپر معرض ِوجود میںآیا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہوگا کہ قوم اور قومی ریاست کی اصطلاحات کے مفہوم میں بر صغیر جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیگر معاشروں جن میں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام دونوں شامل ہیں ،سے مختلف ہے۔دنیا کے تمام معاشروں میں قوم کا تصور اور اس کے اجزائے ترکیبی مشترک ہیں۔ پاکستان کی تشکیل جداگانہ مسلم قومیت اور دو قومی نظریے کی اساس پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رنگ و نسل،ذات پات،زبان وجغرافیہ کا پاکستان کے نظریاتی وجود میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک مسلم قوم کی حیثیت میں ہر امتیاز سے بالاتر ہو کراپنا حق خود ارادیت مطالبہ پاکستان کی تائید میں استعمال کیا ،جس کا اظہار انہوں نے46 1945کے انتخابات میں رائے دہی کے ذریعے کیا تھا۔اگر مسلم قومیت کے علاوہ جغرافیائی تشخص قیام پاکستان کی بنیاد ہوتا توپھر محض ان صوبوںو علاقوں کے مسلمانوں کا ووٹ ہی اس مملکت کے قیام کے لئے کافی تھا جو پاکستان کی حدودمیں شامل تھے،لیکن صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کے ان مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوںنے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاجنہیں تقسیم ِ ہند کے ایجنڈے کے مطابق پاکستان میں شمولیت کے بجائے ہندوستان ہی کا حصہ رہنا تھا ۔پاکستان کی مسلم قومیت کے تشخص کو برقرار رکھتے ہو ئے ملک میں شہریت citizenshipکا ایک آئنی قانونی ڈھانچہ مو جود ہے جس کے تحت ملک کا ہر شہری آئین و قانون کے سامنے مساوی ہے اور یکساں حقوق کا مالک ہے ۔


1867میں سر سید احمد خان نے برطانوی وائسرائے ہند کی ایگزیکیٹو کونسل میں اعلان کردیا تھا کہ ہندوستان ایک برِاعظم ہے جہاں متعدداقوا م ہیں اور بحیثیت ِ قوم مسلمان جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں ۔یہی وہ دو قومی نظریہ تھا جس پر تحریکِ انصاف کی عمارت منزل بہ منزل تعمیر ہوئی ۔اسی نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے سر سلطان محمد شاہ آغا خان اور نواب محسن الملک کی قیادت میںمقای وائسرائے لارڈ منٹو سے ملاقات کرکے برِ صغیر میں جداگانہ طریقہ انتخاب کو منوایا گیا تھا ۔تحریکِ پاکستان کا یہ سفر اپنے اپنے انداز سے جاری رہا جس میں داغ دہلوی ،مولا نا عبدالحلیم شرر ، خیری برادران ،1930میں علامہ محمد اقبال کا خطبہ ِ الہ آباد ،1938میں شیخ عبدالمجید سندھی کی قرارداد، 23 مارچ1940کو مولوی ابوالقاسم فضل ا لحق کی پیش کردہ قرارداد پاکستان اور آل انڈیامسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے قانون ساز اداروں کے اجلاس میں حسین شہید سبروردی کی قرارداد تحریکِ پاکستان کے اہم ترین موڑ ہیں ۔قبل ازیں 1905میں مسلم و غیر مسلم بنگا ل کی تقسیم عمل میں آچکی تھی جس کو تھوڑے عرصے بعد ہندوئوں کے احتجاج کے نتیجے میں منسوخ کردیا گیا ۔1906 میں نواب آف ڈھاکہ سر سلیم اللہ کی قیام گاہ پر نواب وقار الملک کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیا م بھی عمل میں آگیا تھا۔دراصل ہندوستان میں جداگانہ طریقہ ِ انتخاب کا نفاذ وہ فیصلہ کن مرحلہ تھا جس کے ذریعے مسلم قومیت کا علیحدہ وجود تسلیم کیا گیا ۔یہاں سے تحریک پا کستان کا اگلا مرحلہ شروع ہوا جس میں بر ِصغیر کی مسلم قوم کے لئے علیحدہ قومی وطن کے مطالبے کا جواز واضح ہو گیا اور اسی لئے برِصغیرمیں مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن پاکستان کے نعرے پر منعقد ہو نے والے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کامیابی کے باعث مطالبہ پاکستان کو باقاعدہ آئینی و قانونی طور پرتسلیم کر لیا گیا ۔


نظریہ ِ پاکستان میں مسلم قومیت کے مختلف تشخص کی وجہ سے دنیا کی طاقتور اقوام نے ہندوستان کے برعکس پاکستان کی جدید قومی شناخت کو قبول نہیں کیا اور یہی پاکستان میں عالمی قوتوں کی مداخلت کا سبب بنا جس کی سہولت کاری کے نقوش ملک بھر میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے نظریہ ِ قومیت کی کامیابی کے نتیجے میں دنیا کے سامنے قوم کا ایک نیا تصور ابھر کر سامنے آسکتا تھا جو ان کے نظریات کے لئے چیلنج ہو سکتا تھا ۔آج بھی بھارت میں پاکستان کی آبادی کے لگ بھگ تقریباً 20کروڑ مسلمان آباد ہیں لیکن جمہوری طرز ِحکمرانی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔اگر اتر پر دیش کی ریاست میں بابری مسجد کو شہید کرکے رام مندر تعمیر کیا جاسکتا ہے تو شاید اس کا سبب یو پی میں مسلمانو ں کی کم تعداد کی رہائش ہو لیکن جب وادیِ کشمیر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کے باوجود بھارت نہ صرف وادی میں شعائرِ اسلام کی بے حرتی کرتا ہے ،مسلمانوں کا قتل ِ عام کرتا ہے اور وادی پر غاصبانہ قبضہ جما لیتا ہے تو اس کا واحد سبب ہندوستان کی مرکزی حکومت اور اقتدار میں مسلمانوں کی موجودگی و تناسب کا فقدان ہے ۔اگر پاکستان معرضِ وجود میں نہ آتا اور پاکستان کے موجودہ صوبے غیر منقسم ہندوستان میں شامل ہو تے تو ان صوبوں کی غالب اکثریت بھی ہندوستان کے حکمرانوں اور اکثریتی آبادی کے رحم و کرم پر ہوتی اوروہ جب چاہتے پرمرکز میں اپنی غالب اکثریت کے بل بوتے پر مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی شعائرِ اسلام کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کے مرتکب ہوتے ۔ہندوستان کے آج کے حالات اس منظر کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ۔


قومی ریاستیںجن کے تشخص کی بنیاد کچھ بھی رہی ہو ،میںشامل جغرافیائی اکائیوں کو ان کے منفرد تشخص سے محروم نہیں کیا جاسکتااور نہ ہی اس تناظر میں انسانی فطرت کو نظر انداز کیا جاسکتاہے ۔محض کسی علاقے میں ترقیاتی کام اس کی مقامی آبادی کو مطمئن نہیں کرسکتے ۔تاوقتیکہ خودمقای آبادی کو ان کا مکمل عمل دخل حاصل نہ ہو ۔اسی طرح مقامی آبادی کے سیاسی آدرش کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور اس حوالے سے بھی ان کے تشخص کی بقا کا اہتمام ضروری ہے۔بستیوں اور علاقوں میں دیگر مقامات سے آبادی کی منتقلی کے بارے میں مقای آبادی کے لئے عددی تناسب میں تبدیلی تشویش کا باعث ہو سکتی ہے جس کے لئے جس ریاست کو تواتر کے ساتھ سیاسی ،اقتصادی اور سماجی اصلاحات کرنی ہوں گی ۔یہ معاملہ یقیناًغور طلب ہے کہ وفاق کاوجود اختیارات کے بغیر بے معنی ہوجاتا کیونکہ وفاق میں شمال جغرافیائی اکائیاں اپنی داخلی خود مختاری کی قربانی دے کر وفاق کی تشکیل کرتی ہیں ۔


قیامِ پاکستان کو 71سال ہونے کو آرہے ہیں ۔آزادی کے وقت ریاست خطے کے مشرق و مغرب میں دو بازئوں پر مشتمل تھی لیکن بدقسمتی سے 1971میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا جس کی وجہ سے مسلم قومیت کے حوالے سے دو قومی نظریے کو وقتی طور پر نقصان پہنچا لیکن نظریہ کامیاب یا ناکام نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیروکار عملدر آمدمیں کامیاب یا ناکام ہوتے ہیں ۔نظریہ ایک متحرک قوت کے طور پر نسلاًدر نسلاًجاری رہتا ہے ۔جنوبی ایشیا کا خطہ آج جس سیا سی صورتحال سے گزررہا ہے اس کے پیشِ نظر ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین سرکاری اور عوامی سطح پر باقاعدہ رشتوں کو بحال کیا جائے تاکہ دونوںمسلم برادر ممالک خطے میں بھارت کی بالا دستی کا مقابلہ کرسکیں ۔بنگلہ دیش موجودہ حالات میں بھارتی اجارہ دار سرمایہ دار ی کے تسلط کے جس خدشے کا شکار ہے اس دبائو سے نکلنے کے لئے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین دوستی کا فروغ وقت کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین