بنی نوع انسان کو اپنے ارتقائی ابتدا ہی سے کئی طرح کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ،یہ بیماریاں اپنی شدت اور پھیلاؤ کے لحاظ سے مختلف قسم کی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وجوہات کے لحاظ سے بھی ان بیماریوں کو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ان میں کچھ بیماریاں جینیاتی تبدیلیوں اور کچھ ماحول میں پائے جانے و الی نقصان دہ طبعی اور کیمیائی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں اور کچھ جراثیموں کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔
سائنسی تحقیق کے ابتدائی ادوار میں ان بیماریوں کی معلومات اور وجوہات انتہائی سطحی تھیں ۔عام طور پر بیماریوں کی علامات ہی بیماریوں کی میکانیت تصور کی جاتی تھی ۔ نتیجتاً ان بیماریوں کے علاج اور اس کی روک تھام میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ تاہم گزشتہ تین صدیوں میں ہونے والے سائنسی ارتقا کے نتیجے میںآج ہم ان بیماریوں کو ماورائے فطرت و وجوہات سے تعبیر نہیں کرسکتے بلکہ اب ہمیں کئی بیماریوں کا میکانیت کا ادراک ان کی سالماتی تہہ تک ہوچکا ہے۔ علم کے اس معراج کے حصول کے لئے سائنس دانوں نے کئی طریقے وضع کئے ہیں ،ان میں سے ایک انتہائی اہم جانوروں میں انسانی بیماریوں کی جانچ کے لیے Modelling ہے۔
اس سلسلے میں بیکٹیریا سے لے کر بندروں تک کو انسانی بیماریوں کے تحقیقاتی تجربات میں استعمال کیا گیا۔ انہیں جانوروں میں سے ایک Drosophila melonogaster جسے عام طور پر فروٹ فلائی (fruit fly) بھی کہا جاتا ہے۔ فروٹ فلائی کاتعلق جانوروں کے خاندان (Arthropoda) آرتھروپوڈا سے ہے اور اس کا ذیلی خاندان (Insecta) انسکٹاہے۔فروٹ فلائی دراصل دو پروں والی مکھی ہے، جس کی جسامت محض دو ملی میٹر تک ہوسکتی ہے۔
عام طور پر یہ پھلوں پر منڈلاتی ہوئی پائی جاتی ہے اور اس کی کل 1600 اقسام پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں یہاں اس سوال کا اٹھنا قابل فہم ہے کہ ایک انتہائی مختصر جسامت رکھنے و الی سادہ سی مکھی کا انسان جیسے پیچیدہ جاندار سے کیا موازنہ، کہ اسے انسانی بیماریوں کی تحقیق میں استعمال کیا جاسکے۔ اس سوال کا جواب انسان اور فروٹ فلائی میں پائے جانے والے جینیاتی مادّے کی مماثلت سے ہے ،جس کا سب سے پہلے اندازہ امریکی سائنس دان Thomas H.Morgan نے آج سے تقریباً100سال پہلے کولمبیا یونیورسٹی میں کیا تھا ۔ مورگن نے انہیں مکھیوں پر تحقیق سے یہ بات ثابت کردی کہ کسی بھی جاندار کا جینیاتی مادّہ ان کے خلیات میں موجود دھاگے نماساختیں کروموسومز میں موجود ہوتا ہے۔
اس کے بعدکئی سائنس دانوں نے Thomas H.Morgan کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور جاندار وں بشمول انسانوںمیں ہونے والے کئی ناقابل یقین حیاتیاتی عوامل کی پیچیدگیوں کا سراغ لگایا جن میں تابکاری سے ہونے والے خطرات بیماریوں سے مدافعت، پیدائش سے پہلے ہونے والی نمو اور حتی کہ دن اور رات میں ہو نے والی تغیرات کے نتیجے میں جانداروں بشمول انسان میں ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیاں قابل ذکر ہیں۔ اب تک کوئی چھ نوبل پرائز صرف Drosophila Melanoyasterپر کی جانے والی تحقیقات کو دیئے جاچکے ہیں جن میں سے تین موجودہ صدی میں دیئے گئے ہیں ،جس سے Drosophila Melanoyaster کی سائنسی افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کسی بھی جاندار کے جسمانی ساخت اور افعال کی ساری معلومات جینز میں پوشیدہ ہوتی ہے انسانی جینیاتی مادّے میں تقریباً 25ہزار جینز موجود ہوتے ہیں جب کہ Drosophila Melanoyasterمیں تقریباً 15ہزار جینز پائے جاتے ہیں دونوں جانداروں کے جینیاتی مادّے میں تقریباً 60فی صد مماثلت پائی جاتی ہے اور انسانی بیماریوں کی تقریباً 75 فی صد جینز Drosophila Melanoyaster کے جینیاتی مادّے میں ملتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی انسانی بیماریوں کا Model Drosophila میں تیار کیا جاچکا ہے جن میں کینسر، ذیابیطس، دل اور حتٰی کہ گردوں میں ہونے والی پتھری تک Drosophila Modelمیں کامیابی سے کیا جاچکا ہے۔
پاکستان میں ڈائو کالج آف بائیو ٹیکنالوجی، ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بھی Drosophila کو انسانوںمیں ہونے والی ماحولیاتی اورجینیاتی بیماریوں کی تحقیق کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، جس کی سربراہی ڈائو کالج آف بایو ٹیکنالوجی کے وائس پرنسپل ڈاکٹر مشتاق حسین کررہے ہیں۔ گزشتہ سال ڈاکٹر مشتاق حسین کی سربراہی میں کام کرنےو الی دو طالبات شینا بشیر اور فوزیہ رضا نے Holoprosencephaly نامی ایک جینیاتی بیماری کا Drosophila میں Model تیار کیا۔ اسی اثنا میں اسی تحقیقی گروپ میں شامل ڈائو کالج آف بایو ٹیکنالوجی کی چار طالبات انوشہ امان اللہ، شیرن الین ڈسوزا، عائشہ اشرف بیگ اور افرح محمود نے پلاسٹک کی تیاری میں استعمال کئے جانے والے ایک کیمیکل Biophenol-A کے کینسر اور اعصابی بیماریوں کے پیدا کرنے کی صلاحیت کا تعین Drosophila میں کیا، جس طرح Covid-19 کی حالیہ وبا کے دوران کئی سائنس دانوں نے اپنی تحقیق کا مرکز اس وبا کے وجوہ بننے والے وائرس کو بنایا۔
اسی طرح ڈاکٹر مشتاق کی سربراہی میں کام کرنے والی ٹیم جس میں جامعہ کراچی کی شعبہ فرد حیاتیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نصرت جبیں، ناصرالدین اور ڈائو کالج آف بایو ٹیکنالوجی، ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی شینابشیر، بسمہ عزیز، انوشہ امان اللہ، فوزیہ رضا اور عائشہ اشرف بیگ نے Drosophila Melanoyasterمیں SARS-COV-2کی بیماری کو Model کرنے کے حوالے سے پیش رفت کی اور حال ہی میں تحقیق بین الاقوامی سائنسی جریدے Data In Brief میں شائع ہوچکی ہے۔
اس تحقیق کی بنیاد SARS-COV-2 پر کی جانے والی چند ابتدائی تحقیقات پر رکھی گئی۔ یہ ابتدائی تحقیقات اٹلی، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے سائنس دانوں نے انجام دی ہیں جن کے نتائج نیچر اور جنرل آف کلینیکل میڈیسن میں شائع ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر ان تحقیقات سے اس بات کا پتہ چلا کہ SARS-COV-2 وائرس کے 28پروٹینز انسان میں پائے جانے والے 21ہزار میں سے تقریباً چار سو مختلف پروٹینز سے براہ راست جڑتے ہیں۔ SARS-COV-2 اور انسانی پروٹین کا یہ اشتراک بیماری پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ مزید تحقیقات کے لئے مختلف قسم کے جانوروں کے ماڈلز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ڈاکٹر مشتاق حسین اور ان کی ٹیم نے Drosophila Melanoyaster کی جینوم کی مکمل Screening کی اور اس کا موازنہ ان انسانی پروٹین سے کیا جو SARS-COV-2 کے وائرس سے جڑتے ہے۔ اس مقصد کے لئے مختلف کمپیوٹر پروگرام استعمال کئے گئے۔ تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ وہ 400 انسانی پروٹینز جو کہ SARS-COV-2 وائرس کے28 مختلف پروٹینز سے جڑ کر وائرس کے انفکشن کا باعث بنتے ہیں ۔
ان میں سےتقریباً 300سے زائد Drosophila Melanoyaster میں بھی پائےجاتے ہیں۔ اس تحقیق میں اس بات کی بھی جانچ کی گئی کہ Drosophila کی یہ 300 پروٹینز اس کے کن حصوں میں موجود ہے۔ یقیناً اس تحقیق سے یہاں کئی سوال ابھرتے ہیں۔
1-کیا SARS-COV-2کا وائرس Drosophila Melanoyaster پر بھی حملہ اور ہوسکتا ہے یا اس مکھی سے پھیل سکتا ہے۔
2-انسانی اور Drosophila Melanoyaster کی رپوٹینز میں اس قدر مماثلت کیوں ہے؟
3-اس تحقیق سے SARS-COV-2 کے حوالے سے مزید کیا معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر مشتاق حسین نے وضاحت کی کہ بلاشبہ وہ پروٹینز جن کو SARS-COV-2 کا وائرس بیماری پیدا کرنے میں استعمال کرتا ہے ۔ان میں سے کئی Drosophila Melanoyaster میں پائے جاتے ہیں لیکن بیماری پیدا کرنے کے لئے کئی اور عوامل بھی درکار ہوتے ہیں جن میں عضو کی ساخت اور پروٹین میں موجود ان کے اہم سالوں کی خاص ترتیب ہے۔Drosophila اور انسانی پروٹینز میں سالموں کی یہ ترتیب کسی حد تک مختلف ہے۔ مزید یہ کہ 400 انسانی پروٹینز میں سے تقریباً300 Drosophilaمیں پائے گئے ہیں ان دونوں وجوہات کے باعث یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ نہ تو اس مکھی پر وائرس حملہ آور ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔
انسان اور Drosophila کی پروٹینز میں پائی جانے والی مماثلت کے بارے میںڈاکٹر مشتاق حسین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سو پچاس سال کی سائنسی تحقیقات نے یہ بات حتمی طور پر واضح کردی کہ تمام جاندار ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں جن کی وجہ سے ان کے جینیاتی مادّے اور پروٹینز میں بھی مماثلت ملتی ہے۔
جو جاندار ارتقائی طور پر قریب ہوں گے ان میں مماثلت کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اسی وجہ سے گائے کا جینیاتی مادّہ بکری سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے نہ کہ بلی سے، کیوں کہ گائے اور بکری دراصل ایک ہی قسم کے آبائواجداد سے وجود میں آئے ہیں جو کہ آج سے 72 ملین سال پہلے موجود تھے۔ اسی طرح انسان اور Drosophila میں ارتقائی تعلق تقریباً آٹھ سو ملین سال پہلے کا ہے۔ اس کے باعث انسان اور Drosophila کے جینوم اور پروٹینز میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
اس تحقیق کی افادیت سے متعلق ڈاکٹر مشتاق حسین نے وضاحت کی کہ بڑے جانوروں میں مکمل وائرس کی بیماری کی ماڈلنگ کے لئے ان جانوں کو وائرس سے متاثر کرنا پڑتا ہے جن سے کئی حیاتیاتی پیچیدگیاں اور خطرات وجود میں آسکتے ہیں۔ لہٰذا وائرس کی بیماری کی تفصیلات تحقیق کے لئے مکمل وائرس کی بجائے اس کی انفرادی پروٹینز کو ان جانوروںمیں داخل کیا جاتا ہے۔
بڑے جانوروں میں اس طرح کے تجربات مہنگے، مشکل اور پیچیدہ ہوتے ہیں اور ان کے نتائج آنے میں بھی کافی وقت دکار ہوتاہے جب کہ Drosophila میں یہ نتائج کم وقت میں حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ انسانی SARS-COV-2 کی پروٹینز کے درمیان اشتراک کو توڑنے کے لئے تیار کی گئی ادویات کی بھی جانچ Drosophila میں کی جاسکتی ہے اس سلسلے میں تحقیقات ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں جاری ہیں۔جن کے نتائج سے جلد ہی لوگوں کو آگاہ کردیا جائے گا ۔