فاطمہ حسن
جانتے تھے بچپن سے منزلِ شہادت کو
دین کے تقاضے کو، منصبِ امامت کو
وقتِ عصر سجدے میں سر کٹانے والے کی
کون بھول پائے گا آخری عبادت کو
اک اذان اکبرؑ کی، ایک خطبہ زینبؑ کا
آج بھی سناتے ہیں، ہم نبی کی اُمت کو
اک عَلَم جو خندق سے کربلا تک آیا تھا
ہم بلند رکھتے ہیں اس کی ہی علامت کو
ہم درود پڑھتے ہیں ہم سلام لکھتے ہیں
ہم نے زندہ رکھا ہے اپنی ہر روایت کو
کانپ کانپ جاتی ہوں اور خون روتی ہوں
فاطمہؔ جب لکھتی ہوں پیاس کی اذیت کو