پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے 12جنوری 1931ء کو کوہاٹ پشاور کے ایک ادبی گھرانے میں ایک خوبصورت بچے نے جنم لیا جن کے والدسید محمد شاہ برق علاقہ کے ایک بڑے فارسی شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے، انہوں نے اپنے بیٹے کا نام سید احمد شاہ علی رکھا ۔ سادات گھرانے کا یہ چشم و چراغ اپنی گھٹی میں پشتو زبان کی چاشنی اورفارسی کی رعنائیاں لے کر پلا بڑھا لیکن نجانے کب اسے لکھنؤ اور دہلی کی پروردہ اردو زبان سے پیار ہو گیا۔ سید احمد شاہ علی نے بیک وقت پشتو، فارسی، اردو، انگریزی زبان و ادب کی آغوش میں پرورش پائی۔ ان زبانوں سے ان کا بیک وقت لگائو ان کو علمی و ادبی طور پر نکھارتا گیا اور یوں انہوں نے ایم اے اردو اور ایم اے فارسی کی تعلیم مکمل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دونوں زبانیں ان کا ازلی عشق تھیں ، وہ ان زبانوں کے قادر الکلام شاعر تھے۔ شاعری میں انہوں نے اپنا تخلص فرازؔ اختیار کیا جو ان کی عالمگیر شہرت کا سبب بنا ۔
احمد فراز کے ہاں تشبیہات ، استعارات و تلمیحات کا جو خوبصورت انداز پایا جاتا ہے وہ ان کی فارسی شاعری سے لگائو ہی کا نتیجہ ہے مثلاً
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکین اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
شعر میں ’’شبستان‘‘ کی ترکیب کا استعمال احمد فراز ہی کا علمی کارنامہ ہے جو ان کی شاعری پر فارسی زبان و ادب کے اثرات کی واضح دلیل ہے۔ ان کی طبیعت کا رومان ان کی شاعری کے سانچے میں ڈھلا تو پڑھنے اور سننے والوں نے اپنے دل ہاتھوں پر رکھ لئے۔
احمریں جسم آنچ دیتا ہے
جس طرح پیرھن سلگتا ہے
اس شعر میں ’’احمریں‘‘ اور ’’پیرہن‘‘ جیسے الفاظ کا خوبصورت اور برمحل انتہائی استعمال ہے۔
غم ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جسے میر تقی میر سے لے کر آج تک کے شعراء نے موضوع سخن بنایا۔ احمد فراز بھی اپنے عہد میں انسانی غموں کو آنے والے زمانوں تک محسوس کرتے تھے۔ وہ اپنے چاروں طرف بکھرے حالات و واقعات سے واقف رہے انہیں زندگی کی آہ و فریاد کا احساس و ادراک بھی تھا ،اُن کے کلام کی دل گرفتگی اور خیال خیزی کچھ اس طرح نمایاں ہوتی ہے۔ ؎
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اُداس لوگوں کی
احمد فراز کے کمال فن کی معراج پر ہونے کی وجہ اوزان و بحور پر دسترس اور شعر کی باریکیوں سے بخوبی واقفیت تھی لیکن اُن کا کہنا تھا کہ شاعر اور ادیب لفظوں کا بازی گر نہیں ہوتا بلکہ اُس کی کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اس لئے ان کی شاعری حرارت سے خالی نہیں بلکہ وہ ان کی زندگی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔؎
کوئی اگر طلب کرے تجھ سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
فراز کی خوش بختی کے کیا کہنے کہ کتاب خوانی سے نا آشنا قلوب تک بھی اُن کی شاعری اپنے وقت کے نامور گلوکاروں کی مترنم آوازسے مسلسل گھر گھر پہنچی۔ مہدی حسن، غلام علی، رونا لیلی، فریدہ خانم، جگجیت سنگھ اور ملکہ ترنم نور جہاں جیسے عظیم گلوکاروں نے عوام تک احمد فراز کا کلام پہنچایا۔ ؎
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
احمد فراز اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں مقبول ہو گئے تھے ، ابھی بی اے کر رہے تھے کی اُن کی شاعری کی پہلی کتاب ’’تنہا تنہا‘‘ چھپی ،ساتھ ہی وہ ریڈیو سے منسلک ہو گئے اورفیچر لکھتے رہے۔ تعلیم مکمل ہوئی تو وہ ریڈیو کو چھوڑ کر لیکچرار ہو گئے۔ اِس کے ساتھ ہی وہ ڈائریکٹر پاکستان نیشنل سنٹر پشاور بھی لگ گئے۔ بعد میں وہ چیئرمین نیشنل بک فائونڈیشن بھی رہے۔ احمد فراز کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی کئے گئے ، جس میں انگلش، فرنچ، ہندی، روسی، جرمنی اور پنجابی شامل ہے۔ وہ چیئرمین اکیڈمی آف لیٹرز بھی رہے۔
احمد فراز صرف ایک رومانوی و مزاحمتی شاعر ہی نہ تھے بلکہ ایک نظریاتی و مزاحمتی انسان بھی تھے جن کے سینے میں ملک و ملت کا درد نوحہ بن کر ٹھاٹھیں مار تاتھا یہی وجہ ہے کہ ضیاء الحق کی آمریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی سرزمین کو احتجاجاً الوداع کہہکر لندن میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کئے رکھی۔احمد فراز نے آمرانہ قوتوں کے خلاف اپنا چلن آخر عمر تک نہ چھوڑا اور جب جنرل پرویز مشرف نے انہیں ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ہلالِ امتیاز‘‘ دینا چاہا تو احمد فراز نے انکار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی شاعری ان کے کردار کا پرتو ہے۔ بقول احمد فراز؎
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بہر کیف ان کی ادبی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز اور بعد میں ہلال پاکستان سے بھی نوازا گیا۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران آپ کی حیات ہی میں 14سے زائد شعری مجموعے چھپ کر سامنے آ گئے تھے اور آپ کی شاعری کلیات کی شکل میں یکجا ہو کر آ گئی تھی جس کا عنوان ’’شہر سخن آراستہ ہے‘‘ الغرض موت سے کس کو رستگاری ہے؟ عہد حاضر کے سب سے بڑے اردو شاعر احمد فراز 25اگست 2008ء کو دارِ فانی کو چھوڑ کر اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)