• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیدوبند اُس کے لئے ہے،اور قوم کے لئے اِس میں امید کی کرن۔ عرصہ سے، اور یہ عرصہ بہت طویل ہے، عشروں پر محیط، قوم درماندہ رہی، بے بسی کی کیفیت میں رہی، جبراً رکھی گئی۔ جب جس کا جی چاہا قوم پر چڑھ دوڑا۔جزا اور سزا کا کوئی تصور ہی یہاں موجود نہیں رہا۔ معذور غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی برخواست کردی،جسٹس منیر نے اس کا یہ اقدام درست قراردے دیا۔ 1954ء کی بات ہے،چار برس بعد جنرل ایوب خان نے ملک کا پہلا آئین منسوخ کر دیا۔ یہ آئین بڑی تگ و دو کے بعد بنا تھا، قیام پاکستان کے19 سال بعد،اسے دو سال بھی چلنے نہیں دیا گیا۔جسٹس منیر نے جنرل ایوب کے اس غیر آئینی اقدام کو درست قرار دیا اور پتہ نہیں کہاں سے نظریہٴ ضرورت ڈھونڈ نکالا۔ ایوب خان نے 1962ء میں اپنا بنایا ہوا آئین مسلط کر دیا اور سات سال بعد اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ کر خود ہی اس آئین کو پامال کیا۔ جنرل یحییٰ خان نے پاکستان میں انتخابات تو کرائے مگر اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا، اس نے اور اس کے ساتھی ٹولے نے ملک کو دولخت کردیا۔ بچے کھچے پاکستان میں اختیار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا گیا، وہ صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے، پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر۔ بھٹو نے، اور اس وقت کی ساری سیاسی جماعتوں نے بصیرت کا ثبوت دیا اور 1973ء کا متفقہ آئین قوم کو دیا۔ یہ آئین بھی چار سال کی عمر میں ہی معطل کردیا گیا۔ عنان حکومت جنرل ضیاء الحق نے سنبھالی، صدر بن بیٹھے۔اگر 17/ اگست 1988ء کو ہمارے صدر کاجہاز ’پھٹ‘ نہ گیا ہوتا تو پتہ نہیں توپ و تفنگ کی بدولت ضیاء الحق کب تک حکومت کرتے۔ آمر نہ رہا تو جمہوریت خودبخود بحال ہوگئی۔ درون خانہ محلاتی سازشوں سے قطع نظر جمہوریت، لڑکھڑاتی ہوئی چلتی رہی، حکومتیں دو ڈھائی سال ہی نکال پاتیں کہ برطرف کردی جاتیں مگر جمہوریت بہرحال چلتی رہی۔ کسی نہ کسی طرح جمہوریت نے گیارہ سال نکال لئے۔جنرل پرویز مشرف نے بالآخر اسے پٹڑی سے اتاردیا، آئین معطل کردیا اور خود اقتدار پر قابض ہوگئے۔ عدالت نے اپنے پیشروؤں کی طرح جنرل مشرف کے دباؤ میں اس اقدام کو بھی درست قرار دے دیا۔
پاکستان کی آئینی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کبھی بھی کسی برسراقتدار حکمران کے خلاف فیصلہ نہیں دیا۔ غلام محمد،ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف سب ہی عدالتوں سے اپنے غیر آئینی اقدامات کی توثیق حاصل کرتے رہے۔ اس سارے قضیے میں ایک استثنیٰ ہے، جنرل یحییٰ خان، کہ اسے عدالت عظمیٰ نے غاصب قرار دیا مگر کب؟یحییٰ خان سے اقتدار بھٹو کو منتقل ہوا، انہوں نے بھی مارشل لا برقرار رکھا۔ اس مارشل لا کو ملک غلام جیلانی کی نظر بندی کے مقدمہ میں ان کی بیٹی عاصمہ جیلانی،اب عاصمہ جہانگیر نے چیلنج کیا۔ مارشل لا نافذ کرنے والے جنرل یحییٰ اقتدار میں نہیں تھے، عدالت عظمیٰ نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ کرلیا تھا اور بھٹو کو آگاہ کردیا گیا۔ انہوں نے فیصلے سے ایک دن پہلے مارشل لا اٹھانے کا اعلان کر دیا۔(حالانکہ ذرا پہلے وہ قومی اسمبلی کے اپنے حامی104/ ارکان سے مارشل لا جاری رکھنے کی حمایت حاصل کر چکے تھے)۔ عدالت عظمیٰ نے جب یحییٰ خان کے خلاف فیصلہ سنایا، انہیں غاصب قرار دیا اس وقت یحییٰ خان اقتدار میں نہیں تھے اور ان کا لگایا ہوا مارشل لا بھی اٹھایا جاچکا تھا۔ عدالت نے نظریہٴ ضرورت کو بھی مسترد کردیا مگر چند سال بعد 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی حمایت میں ایک بار پھر نظریہٴ ضرورت پر انحصار کیا گیا اور مارشل لا کے خلاف مقدمہ کے فیصلے میں جنرل ضیاء کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔
یہ اختیار درخواست گزار، نصرت بھٹو نے مانگا نہیں تھا، انہوں نے تو مارشل لا کو غیر آئینی قرار دلوانے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ یہی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہوا۔ ان کے 1999ء کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کرتے ہوئے عدالت نے انہیں بھی آئین میں ترمیم کا حق دے دیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فیصلے ہو بہ ہو، لفظ بہ لفظ ایک ہی ہیں۔ صرف ضیاء الحق کی جگہ مشرف کا نام لکھا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں نے مشرف کے معاملے میں ضیاء الحق کے فیصلے پر ہاتھ صاف کیا۔ یہ سارے حکمران غیر آئینی اقدامات کرنے کے باوجود کبھی کسی سزا کے مستحق نہ ٹھہرے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان پورے اعزاز سے رخصت ہوئے اور مرے تو فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کئے گئے، ضیاء الحق کو تو کچھ زیادہ ہی پروٹوکول دیا گیا۔ یہ سب قانون کی گرفت سے بچ گئے۔
بچ تو جنرل مشرف بھی گئے تھے۔ ان کا پہلا غیر آئینی اقدا م درست قرار دیا جا چکا تھا مگر ان کی شامت کہ انہوں نے ایک بار پھر آئین معطل کر دیا اور تین نومبر2007 ء کو ججوں کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اس اقدام کی توثیق نہیں ہو سکی۔ اسے غیر آئینی قرار دیا گیا۔ یہ اور ان کے کئی غیر آئینی اقدامات اب ان کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ عدالت میں سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو پیش کیا جانا، ایک ناقابل تصور بات ہے۔ یوں کب ہوا تھا۔ پہلی بار ہو رہا ہے کہ کسی حکمران کو اس کے غیر آئینی اقدامات پر عدالت اور قانون کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ امید کی ایک کرن ہے جس نے حوصلے کی جوت جگادی ہے۔ اگر مشرف پر مقدمہ چل سکتا ہے تو ان سب کو قانون کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے جو خودی کے نشے میں سرشار ہوکر خدا بن بیٹھتے ہیں، بنتے رہے ہیں۔ امید جاگی ہے کہ کوئی بھی شخص کتنا ہی بڑا ہو، قانون کی خلاف ورزی کرے گا، آئین سے روگردانی کرے گا، سیاست دان ہوں یا جج،جنرل ہوں یا نوکر شاہی کے کارندے، سب کو اپنی کھال میں رہنا ہوگا۔ جو حدوں سے باہر نکلے گا اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت نے حوصلہ دیا ہے، امید بڑھائی ہے، اس لو کو اور تیز ہوناچاہئے، اسے اورتیز کرنا چاہئے۔ اسی میں نجات ہے، اسی میں فلاح ہے،قوم کی، ملک کی، آئندہ آنے والی نسلوں کی۔
تازہ ترین