• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نصف درجن کے قریب وزرائے کرام خودستائی میں بڑھ چڑھ کر عمران حکومت کے دو برس کے کارہائے نمایاں کو نمایاں کرتے کرتے ہانپ سے گئے۔ مگر رپورٹرز تھے کہ اُن سے کوئی خبر بن نہیں پا رہی تھی۔ لے دے کے اگر کسی کے پاس کہنے کو کچھ تھا بھی تو ثانیہ نشتر اور اُن کا احساس پروگرام جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی یاد تازہ کیے رکھتا ہے۔ یقیناً ثانیہ نشتر مبارک باد کی مستحق ہیں کہ اب یہ پروگرام 203 ارب روپے سے تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ غریب خاندانوں تک پہنچ پائے گا۔

بہتر ہوگا کہ بقول آصف علی زرداری کے جو کیش سپورٹ پروگرام کی شاہراہ بنی ہے، اُسے غربت، جہالت اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہوئے ملینیم ڈیویلپمنٹ اہداف کے حصول سے جوڑ دیا جائے۔ تو نصف درجن وزرا کے پاس کچھ کہنے کو نہ تھا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کے نصیب میں سوائے باتیں بنانے کے ہے بھی کیا۔

لیکن داد دینا پڑتی ہے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو جو باتیں بنانے کے ماہر ہیں اور حال ہی میں وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بڑی سُبکی کا باعث بنے۔ مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی آئندہ کی خوش گمانیوں پہ اب کوئی سر دھننے والا نہیں رہا۔ وہ بس آئی ایم ایف کے نسخوں پر عمل کریں۔ یہ خاص یوٹرن تھا کہ اسد عمر کی چھٹی ہوئی اور وہ کِرم خوردہ مالی و مالیاتی نسخوں کا بکچہ اُٹھا چلے آئے۔

خساروں کی کمر کستے کستے اُنہوں نے معیشت ہی کی کمر توڑ دی۔ غریبوں کی کمر تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی تھی، مہنگائی، روپے کی بے قدری، بے روزگاری اور بدحالی کے ہاتھوں وہ زندہ درگور ہو کر رہ گئے۔

گزشتہ برس منفی معاشی نمو کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد وہ اپنے ہی برے ریکارڈ کو ذرا کم بُرا کر پائے تو مبارک باد کے مستحق ہوں گے۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ وہ اس برس کساد بازاری کے حالات میں پانچ کھرب کے محاصلات کہاں سے جمع کر پائیں گے۔

اس حکومت کا اگر کوئی طرئہ امتیاز رہا بھی ہے تو وہ اس کی قلابازیاں یا یوٹرن لینے کی بیباکی ہے۔ انتخابات میں جو خواب دکھائے گئے اور جو بلند بانگ دعوے کیے گئے وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بس ایک احتساب باقی بچا جسے سیاسی مخالفین کا منہ کالا کرنے کے لیے صبح شام استعمال کیا گیا۔ ابھی تک تو کوئی چور ڈاکو اپنے انجام تک پہنچتا دکھائی نہیں دیا اور محتسبوں کے کھاتے میں آیا بھی تو کرکٹ والا انڈہ۔

ہاں! یاد آیا، وہ کاسۂ گدائی جسے توڑنے کی بہت آس دلائی گئی تھی، خیر سے قرضہ دو سال میں 11.35 کھرب روپے بڑھ گیا جو کہ نواز شریف حکومت کے پانچ سالہ دور میں لیے گئے قرضہ جات سے زیادہ ہے۔ کشکول ٹوٹنے کی بجائے پھیلتا چلا گیا ہے۔ یقیناً روپے کی قدر کم ہونے اور شرحِ سود 13 فیصد سے زائد رکھنے کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے۔

لیکن یہ فیصلے بھی تو اس حکومت کے دوسرے معاشی دیو کے تھے جو اسٹیٹ بنک میں براجمان ہیں۔ معاشی کارکردگی ماہرین کی اس جوڑی کو دیکھنی ہے تو ذرا قیمتوں کا جائزہ ہی لے لیں۔ چینی مافیا پہ حملہ آور ہونے کے بعد چینی کی قیمت 68روپے فی کلو مقرر کی گئی، لیکن مارکیٹ میں یہ 100 روپے سے اوپر جا رہی ہے۔

اِسی طرح آٹا مافیا کے خلاف جونہی حکومت میدان میں اُتری اور آٹے کی قیمت 40 روپے فی کلو مقرر کی بھی تو آج وہ 70 روپے کلو بِک رہا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ مافیائوں نے تحریکِ انصاف کی حکومت میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ چینی مافیا پکڑتے ہیں تو مبینہ طور پر اپنے ہی معتبر ترین لیڈر اور چیف منسٹر کا نام آ جاتا ہے۔

آٹا مافیا کے پیچھے بھاگتے ہیں تو اپنے ہی رنگے ہاتھ پکڑے جاتے ہیں۔ گندم کی خریداری میں کسانوں کے ساتھ دھرو کیا گیا اور چاندی ہوئی بھی تو اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کی۔ نیب حرکت میں آیا، نہ مالِ مسروقہ برآمد ہوا کہ بڑے بڑے لوگوں کا یہی دھندہ ہے۔

جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے جب کورونا کی وبا کو روکنے کی کامیاب حکمتِ عملی کا سینہ پھلا پھلا کر ذکر کیا جاتا ہے۔ خود وزیراعظم طے کردہ لاک ڈائون کی پالیسی کو ناکام بنانے پر تُلے بیٹھے تھے۔

اور اس پر طرہ یہ کہ دُنیا کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دے کر جگ ہنسائی کا بندوبست کیا گیا۔ جس ایک حکومت نے کچھ سنجیدگی دکھائی اُس کی ایسی مٹی پلید کی گئی کہ وزیراعلیٰ سندھ بھی چپ سادھنے پہ مجبور ہو گئے، وگرنہ گورنر راج اور کراچی کو وفاق کا علاقہ بنانے کی دھمکیاں تو ہنوز جاری ہیں۔ یہ تو بس قدرت کا معجزہ ہے کہ کورونا کا وائرس جو پاکستان میں پھیلا وہ ذرا معتدل واقع ہوا، ورنہ قیامت ٹوٹ پڑتی۔

اس کالم میں تواتر سے مافیائوں اور گھریلو نوآبادیوں (Fiefdoms) کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے وفاق کے خلاف اگر کوئی متحرک ہے تو وہ انہی مافیائوں اور نوآبادیوں کا وفاق ہے۔ جب معیشت اور گورننس کے پیچھے یہی قوتیں ہوں گی تو ایک اچھا بھلا ملک اور اُس کے جی دار عوام کیا کر پائیں گے؟

جن عدالتی، پولیس و انتظامی اصلاحات کا بہت ڈنکا بجایا جاتا رہا ہے وہ بس ہمارے محترم عشرت صاحب کا تحقیقی مشغلہ بن کے رہ گیا ہے۔ کسی بھی اصلاح پہ دو طرح کی نوکر شاہی مانتی ہے، نہ پولیس راضی ہوتی ہے اور جن کے ہاتھ میں 184(3)ہے اُن کے نظامِ انصاف کو کوئی ہاتھ تو لگا کے دکھائے۔ ان سب کے اوپر وہ ہیں جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور کوئی اشاروں و کنایوں میں گزارش کرتا بھی ہے تو اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔ یادش بخیر وہ مقامی حکومت کہاں گئی جس کا بہت ڈھول پیٹا گیا۔

جو موجود تھیں، معطل کر دی گئیں اور جو بننی تھیں وہ تخلیق کے بطن میں مردہ پائی گئیں۔ پاکستان ایک دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ دست نگری و مفت خوری، کمر توڑ سلامتی، مافیائوں کی دو نمبر سرمایہ داری، پڑھے لکھے جاہلوں کی فوج ظفر موج، رجعت، توہم پرستی اور جہالت ہمارے بیچارے ملک کا طرئہ امتیاز ہے۔ ایسے میں کپتان یا بڑا کپتان کرے بھی تو کیا۔ آوے کا آوا بگڑا پڑا ہے۔

رہی اپوزیشن، نہ پتہ ہے کہ اس کا لیڈر کون ہے اور یہ چاہتی کیا ہے؟ ہمت ہے نہ راست بازی، حکمت ہے نہ متبادل پروگرام۔ سب ٹائیں ٹائیں فش ہو کے رہ گئے ہیں۔ ایسے میں سول سوسائٹی، صحافی، وکلا اور محنت کش کریں بھی تو کیا، جب فقط سر پھوڑنا مقدر ہو جائے۔

تازہ ترین