• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیب انکوائری کلیئر ہونے تک وزیراعلیٰ بزدار کو مستعفی ہوجانا چاہئے؟

اسلام میں شراب کو ام الخبائث کہا گیاہے لیکن پنجاب میں شراب فروشی کا کاروبار عروج پر ہے ۔ مرحوم ضیاء الحق کی حکومت میں شراب سازی، شراب فروشی اور شراب کی خریدو فروخت کے لئے قانون سازی ہوئی جس کے تحت مری،کوئٹہ اورکراچی میں تین فیکٹریوں کو شراب بنانے کےلائسنس حاصل ہیں، پنجاب میں لاہور، ملتان، راولپنڈی ، فیصل آباد میںفور اور فائیو سٹار ہوٹلوں کو شراب کی فروخت کےلائسنس دیئے گئے۔ محکمہ ایکسائز پنجاب ہر سال اقلیتوں کو شراب خریدنے کے پرمٹ دیتی ہے اور اقلیتی برادی کا ہر بالغ شخص اپنی آمدنی کےمطابق شراب کے یونٹ اور بوتلیں خرید سکتا ہے۔ اقلیتوں کے علاوہ غیر ملکی سیاح اورملازمین بھی پرمٹ کے ذریعے شراب خریدتے ہیں۔ 

پنجاب حکومت شراب کی بوتلوں پر ایکسائز ڈیوٹی اور ٹیکسوں کے ذریعے سالانہ کروڑوں روپے حاصل کرتی ہے۔اقلیتوں کے نام پر فروخت ہونے والی شراب کی تمام بوتلیں مسلمان بلیک قیمتوں میں خریدتے ہیں۔ گویا اقلیتیں پرمٹ لیتی اور مسلمان شراب خریدتے ہیں۔ شراب کے کاروبار پر سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے سختی کر دی تھی جس سے شراب کا کاروبار محدود ہو گیا۔ شہباز شریف نےدس برس قبل فور اور فائیو سٹار کیٹگری سے کم ہوٹلوں پر شراب کے پرمٹ کے اجرا پر پابندی لگا دی تھی۔ 

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر الزام ہے کہ انہوں نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے پابندی ختم کر دی، معروف ہوٹلوں کی شراب پرمٹ کی 13درخواستیں جمع تھیں جن میں آخری 13ویںنمبر کی درخواست کو منظور کر لیااور ایک غیر معرف ہوٹل کو شراب کی خرید و فروخت کا لائسنس دے دیا گیا یہ نجی ہوٹل لاہور ایئر پورٹ کے قریب بلکہ حدود میں واقع ہے۔ہوٹل کا کاروبار کرنے والے مالک سید تحسین شاہ نقوی عرف بھگے شاہ کے بیٹے جمیل کا آبائی تعلق منڈی بہائو الدین سے ہے۔ 

یہ کمپنی ریلوے اسٹیشنوں، پرائیویٹ ٹرینوں، کیٹرنگ ٹھیکوں، پارکنگ اور ہوائی اڈوں سمیت دیگر کاروبار کرتی ہے اور متعدد اداروں کی نادہندہ ہے۔ جس ہوٹل کو شراب کا لائسنس دیا گیا وہاں غیر ملکی پروازوں کا عملہ قیام و طعام کرتا ہے اور تمام شہریوں مسافروں اور اقلیتی افراد کو رسائی حاصل نہیں مذکورہ ہوٹل کی جانب سے شراب کا لائسنس حاصل کرنے کی مبینہ طور پر پانچ کروڑروپے رشوت دی گئی ۔ نیب لاہور وزیر اعلیٰ کے خلاف انکوائری کر رہا ہے کہ معروف ہوٹلوں کی لائسنس کے لئے جمع زیر التوا درخواستوں کو نظرانداز کرکے آخری نمبر کی درخواست کیوں منظور کی گئی؟ شراب کا لائسنس جاری کرنے کے لیے فور اور فائیو سٹار ہوٹل کیٹگری کی پابندی ختم کیوں کی گئی؟ 

ہوٹل کو شراب کا لائسنس جاری کرنے کے لیے کہاں بے ضابطگیاں ہوئیں؟ پس پردہ کون کون افراد شامل ہیں؟ ہوٹل کو لائسنس جاری کرنے کے لیے کیا ڈیل ہوئی تھی؟وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف نیب میں ناجائز اثاثوں کے کھاتے بھی کھل چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ، ان کے اہل خانہ، خاندان میں شامل افراد کی ذاتی جائیدادوں، لیز کی جائیدادوں، بنک اکائونٹس سمیت متعدد پہلوئوں کی انکوائری ہو رہی ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی 2018کے الیکشن کے دوران جمع مالی گوشواروں اور اسمبلی میں جمع اثاثہ جات کی تفصیلات میں واضح فرق ہے اور ان پہلوئوں کی تفتیش بھی جاری ہے۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق عجیب بات ہے کہ وزیراعلیٰ سے جائیدادوں کا ذکر ہوتا ہے تو وہ انہیں اپنے نام کے بجائے دیگر ناموں سے منسوب کر دیتے ہیں۔ 

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے رواں ہفتے نیب میں پیش ہونے کے بجائے وکیل کے ذریعے شراب کے لائسنس کے بارے میں نیب کے سوالنامے کے جواب جمع کرا دئے، چار صفحات پر مشتمل جواب میں نیب الزامات کو بے بنیاد کہا گیا، لائسنس دینے کا اختیار ڈی جی ایکسائز کو حاصل ہے، آج تک گیارہ ہوٹلوں کو شراب کے لائسنس جاری ہوئے، 9 ڈی جی ایکسائیز اور دو گورنر نے جاری کئے، جس ہوٹل کو لائسنس دینے کا الزام ہے وہ لائسنس معطل کردیا اور کیس عدالت میں زیر سماعت ہے آج تک ہوٹل نے ایک بھی شراب کی بوتل فروخت نہیں کی، تاہم ہوٹل نے لائسنس کی تجدید کی درخواست دے رکھی ہے، نیب بہر حال تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے اور وزیر کا جواب نیب ہیڈا کوارٹر اسلام آباد کو بھیج دیا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف شراب کا لائسنس، ناجائز اثاثہ جات کے علاوہ تیسرا اہم معاملہ اہم سرکاری عہدوں پر اپنے رشتہ داروں کو تعینات کرنا ہے۔ 

ایوان وزیراعلیٰ، پولیس، انتظامی عہدوں پر دو برسوں کے دوران تونسہ کے بزدار تعینات ہیں۔ صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے ٹھیکے بھی بزداربرادری کو مل رہے ہیں۔ پنجاب سیکرٹریٹ تک ان کی رسائی ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے من پسند ٹھیکوں کے لئے محکمہ مواصلات و تعمیرا ت کو بائی پاس کر کے ٹینڈروں کا اختیار انفرسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے سنبھال رکھا ہے جنوبی پنجاب کے اضلاع لیہ ، ملتان ، ڈیر ہ غازی میں مدر اینڈ چائلڈ کئیر ہسپتال (ایم سی ا یچ) کے 25ارب کے ٹھیکے نہ صرف من پسند افراد کو دئیے جا رہے ہیں بلکہ ان منصوبہ جات کی لاگت، ڈیزائن میں مصنوعی اضافہ کر کے سرکاری خزانے کو اربوں روپے نقصان ہو رہا ہے، ایشیائی ترقیاتی اور عالمی بنکوں کے قرضے صاف اور شفاف استعمال کرنے کے بجائے ناقص کاموں پر خرچ ہو رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ کا نام استعمال کر کے سب کو خاموش رہنے کر دیا گیا ہے۔ 

تحریک انصاف کے حلقوں کاکہنا ہے کہ صوبائی وزراء عبدالعلیم خان، سبطین خان، سمیع اللہ چودھری، اسد کھوکھر، فیاض چوہان، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی اکرم چودھری، وزیراعلیٰ کی خاتون ترجمان عظمیٰ کاردار کو ماضی میں نیب انکوائری، ریفرنسوں، جوڈیشل انکوائریوں ، سکینڈلز میں ملوث ہونے اور پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر عہدوں سے ہٹایا گیا۔ نیب میں عثمان بزدار انکوائری کے باوجود وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہیں جو اخلاقی جواز کے منافی ہے۔ وزیراعلیٰ کو پہلے نیب انکوائری سے کلیئر ہونا چاہیے پھر عہدے پر فائز رہنے کا حق بنتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین