• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


لوگ جانتے ہیں تسلیم کرتے ہیں زلزلے بارشیں طوفان، آندھیاں ہوائیں یہ سب قدرتی آفتیں ہیں، اسے روکنا ممکن نہیں بس اس کے نقصان سے بچنے کی تدابیر ہی اختیار کی جاسکتی ہیں۔

سندھ کی صوبائی حکومت نے بھی حالیہ بارشوں سے تباہی کے سبب صوبے بھرکے مجموعی طور پر 20 اضلاع جس میں شہر قائدکے چھ اضلاع کو آفت زدہ قراردے دیا گیا ہے۔

 53برس قبل کی بارش، جب کراچی آفت زدہ قرار پایا
ترپن برس قبل جنگ کراچی کی اس دن کی خبر

ستائیس جولائی بروز جمعرات کراچی سمیت سندھ بھر میں سیلابی بارشوں نے تباہی پھیلاتے ہوئے معمولات زندگی معطل کردی تھی۔ شہر کراچی میں طوفانی بارش کے نتیجے میں حادثات اور بجلی گرنے سے 23جاں بحق ہوگئے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں 24 گھنٹے میں سب سے زیادہ بارش کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا، ایک رپورٹ کے مطابق جمعرات کو بارہ گھنٹے میں 223 ملی میٹر بارش ہوئی، اس سے پہلے 24جولائی 1967 کو 24 گھنٹے میں سب سے زیادہ 211 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔

جولائی 1967جب قیامت خیز بارش نے شہر کراچی میں تباہی مچائی جس کے بعد شہر کو آ فت زدہ قرار دے دیا گیا تھا۔ آج ہم بتاتے ہیں آج سے 53 سال قبل شہر اور شہریوں پر کیا گزری تھی۔

شہر میں ایک دن قبل اتوار چھٹی کے روز سے ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔

دوسرےروز پیر کے دن چوبیس جولائی 1967کو موسم گزشتہ روز کی طرح ابر آلود تھا لوگ حسب معمول گھروں سے اپنی اپنی مصروفیات اور ذمہ داریاں نبھانے کے لیے گھروں سے اپنی اپنی منزلوں پر جا چکے تھے ۔ 

قریباً صبح پونے نو بجے کے قریب گہرے بادل گِھر کرآئے اور تیز ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارش شروع ہوگئی گرج چمک کے ساتھ یہ سلسلہ تین گھنٹے جاری رہا جب دن 12بجے بارش تھمی تو تب تک پورا شہر جل تھل ہوچکا تھا۔ 

محکمہ موسمیات کے مطابق شہر میں بارش کا نیا ریکارڈ بن چکا تھا، قیامت خیز بارش میں 9 افرادجاں بحق ہوئے، پانی سے سڑکیں گلیاں ندی اور نالے بنے تھے ، اور لیاری ندی اور دوسرے ندی نالوں میں طغیانی آجانے سے ہزاروں جھونپڑیاں اور  نیم پختہ مکانات تباہ ہوچکے تھے۔

لیاری ندی کا پشتہ ٹوٹ گیا تھا، لانڈھی کورنگی راستہ زیرآب آنے سے شہر سے کٹ گیا تھا، متاثر ہونے والی دیگر آبادیوں میں جٹ لائین،جہانگیر روڈ، کلیٹن روڈ، لارنس روڈ، پاکستان کوارٹرز، جمشید کوارٹرز پی آئی بی کالونی، ڈرگ روڈ، گجرو نالہ، غریب آباد، کشمیر کالونی، لیاری، بہار کالونی، اعظم بستی، بنارس کالونی، جمہوریہ کالونی، علی گڑھ کالونی، جہانگیر آباد، جلال آباد، حاجی مراد گوٹھ اورپٹھان کالونی شامل تھا۔

ہنگامی صورتحال کے سبب عوام کی مشکل صورتحال میں مدد کےلیے سول کے ساتھ فوجی انتظامیہ بھی مدد کےلیے شہریوں کی مدد کے لیے موجود تھی ۔

بارش کا یہ سلسلہ تھما نہیں اگلے دن پچیس جولائی کو بھی قیامت خیز بارش ہوئی جس نے مزید تباہی مچا دی، جس میں مزید 17جانیں ضائع ہوئیں۔ 

اس روز دن کے ڈھائی بجے بارش کے نئے سلسلے کا آغاز ہوا اور اگلے تین گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کے بعد شہر بھر کی سڑکوں پر پانچ پانچ فٹ تک پانی کھڑا دیکھا گیا جبکہ اس سے پہلے محفوط آباد یاں جس میں جیکب لائینز خداداد کالونی، محمود آباد، اعظم کالونی لیاقت آباد برساتی پانی کے لپیٹ میں آگیا، ان بستیوں میں گھرے کئی ہزار خاندان کو محفوط مقامات پر منتقل کیا گیا تھا، لیاری کا پشتہ پھر ٹوٹ گیا تھا، ہنگامی صورتحال کے ریلوے ٹریفک معطل اور ہوائی سروس میں تعطل آگیا تھا۔

آج کی بارش سے 99 فیصد جھونپڑیاں اور 52 فیصد کچے مکانات تباہ ہوگئے تھے، ایک اندازے کے مطابق بارش کے سبب شہر بھر میں600 درخت اکھڑ گئے تھے، تین عمارتیں بھی گریں تھیں، شہریوں کو بدترین صورتحال کا سامنا تھا۔

اس موقع پرصوبائی وزیرصحت بیگم زاہدہ خلیق الزمان، وزیرقانون مسٹر اخوند اور کمشنر کراچی سید دربار علی شاہ نے فوری طورپر امدادی کاموں کا آغاز کردیا تھا، دو دن کی بارشوں نے شہر کی متعدد آبادیوں کا حلیہ بگاڑدیا تھا۔

حالات کا جائزہ لینے کے بعد چھبیس جولائی کو کمشنر کراچی سید دربار علی شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ شہر کی بحالی کے لیے اہم اقدامات کیے جارہے ہیں اور مقامی انتظامیہ کی صوبائی حکومت سے سفارش پر اسے آفت زدہ قرار دیا جارہا ہے۔

شہر میں آباد چھ لاکھ افراد کو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں شہر سے جھونپڑیوں کے خاتمے کے لیے ان کی آباد کاری کے لیے ایک لاکھ کوارٹرز کی ضرورت ہے، جہاں انہیں آباد کرکے آئندہ شہر میں کہیں بھی جھونپڑیاں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس موقع پر جاں بحق افراد کےلیے مالی امداد اور مالی نقصان کے ازالے کے لیے بھی امداد دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اس کے اگلے روز مقامی حکومت کی سفارش پرحکومت مغربی پاکستان نے کراچی ضلع کو آفت زدہ قرار دیا اور متاثرین کی بحالی کے لیے مالی امداد کی منظوری دی تھی۔

شہر کراچی کو آفت زدہ قرار دینے والی اس بارش میں اس موقع پر ایک محتاط سرکاری تحمینے کے مطابق تقریبا 9 کروڑ روپے کا مالی نقصان ہوا تھا، 29شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں, تقریباً 50 ہزار خاندان بے گھر ہوئے، شہر کی تقریباً ساڑھے چارسو میل میں سے دوسومیل سڑکیں تباہ ہوگئیں تھیں۔

مضافات بستیوں میں بھی تقریباً 50 میل سڑکیں بے کار ہوگئیں تھیں۔

چار دن میں کم ازکم چار کروڑ روپے کا تجارتی لین دین نہیں ہوا، کارخانے بند ہونے سے تین کروڑ روپے کی مصنوعات تیار نہ ہوسکیں تھیں اور تقریباً ایک کروڑ روپے کی املاک تباہ ہوئیں۔

تازہ ترین