• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روز اول سے یعنی چودہ اگست انیس سو سینتالیس سے کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے کمیٹیاں بنتے، بگڑتے اور بکھرتے دیکھی ہیں۔ نجانے کتنی کمیٹیاں بنیں اور بن کر ٹوٹ گئیں۔ کوئی کمیٹی کچھ نہ کرسکی۔ اس نوعیت کی کمیٹیوں کے ناکام ہونے کا ایک ہی سبب تھا۔ تمام کمیٹیاں مسائل کا حل ڈھونڈنے میں لگ جاتی تھیں۔ کسی ایک کمیٹی نے مسائل کے اسباب جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میں دعویٰ نہیں کرتا کہ کمیٹیوں کے ممبران نااہل تھے یا پھر ممبران کراچی کے مسائل کے اسباب سے بے خبر تھے۔ کراچی کے مسائل کے اسباب زہر جیسے تلخ حقائق پر مبنی ہیں۔ کوئی بھی زمینی حقائق کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کراچی میں مسائل کا انبار ہمارے محب وطن سیاستدانوں کی بے مثال حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان سے مختلف رائے رکھنےوالے یا اختلاف کرنے والے غدار، ملک دشمن اور یکجہتی کے دشمن کہلوانے میں آئے۔ پکڑ دھکڑ کرنے والے اداروں کی مدد سے اُن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک دشمن،غدار اندھے، گونگے اور بہرے کردیئے گئے۔ ان کی بظاہر آنکھیں تو تھیں ، مگر وہ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اُن غداروں کے کان تو تھے مگر وہ سن نہیں سکتے تھے۔ ان ملک دشمنوں کے منہ میں زبان تو تھی، مگر وہ بول نہیں سکتے تھے۔ انکے بولنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ سندیافتہ محب وطن سیاستدانوں نے اپنی سوچ کو تقویت دلوانے کے لئے مرضی کے قوانین بنوائے اور احکامات جاری کروائے۔ ان کے ابتدائی قوانین میں ایک قانون کا بول بالا تھا ۔ اس کا نام تھا ڈی پی آر۔ مجھے یاد ہے ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ ڈی پی آر، ڈیفنس آف پاکستان رولز۔

سیاستدانوں کے ایک نعرے نے ملک کا ناقابل تلافی نقصان کردیا۔ اور کراچی کابھٹہ بٹھا دیا۔ ہم اس وقت اپنی کتھا کو کراچی تک محدود رکھیں گے ۔ ان کا ہر دلعزیز نعرہ تھا، ’’ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں‘‘۔ اس نعرے کا مفہوم ہم فقیروں کو تب بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا جب یہ نعرہ ایجاد ہوا تھا۔ اور آج بھی اس نعرے کا مفہوم ہم فقیروں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم فقیر خاک نشیں ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہم فقیر سمجھتے ہیں کہ کچھ بھی ایک نہیں ہوتا۔ ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے جڑواں بھائی ایک نہیں ہوتے۔ ان کی شخصیت ، ان کے رویے،ان کی سوچ، ڈیل ڈول اور چال ڈھال، ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ آم سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ سرولی، سندھڑی، چونسا، انور رٹول، دسہڑی ہوتے تو آم ہیں ، مگر ایک نہیں ہوتے۔ حتیٰ کہ ایک ہی درخت پر ایک ہی نسل کے آم ایک نہیں ہوتے۔ چونسے کے ایک درخت پر لگے ہوئے ہزاروں آم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی آم چھوٹا، کوئی آم بڑا، بناوٹ میں سب آم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہم فقیر چھوٹی چھوٹی مثالوں سے سیکھتے ہیں۔ ہم دانشور نہیں ہوتے۔ ہم اسکالر نہیں ہوتے۔ آپ ٹنڈے خریدتے ہیں۔ کریلے خریدتے ہیں ۔ کدو خریدتے ہیں ۔ آپ نے خریدی ہوئی سبزی کو کبھی غور سے دیکھا ہے؟ ٹنڈے ہوتے تو ٹنڈے ہیں۔ مگر ایک ٹنڈا دوسرے ٹنڈے سے مختلف ہوتا ہے حتیٰ کہ مختلف مقامات پر پیدا ہونے والی سبزیوں کے ذائقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ سبزیوں کی افزائش میں آب و ہوا اور مقام، زمین، کھاد اور پانی کا فیصلہ کن اثر ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں پیدا ہونے والے گھوڑے ہوتے تو گھوڑے ہیں ، کہلوانے میں بھی گھوڑے آتے ہیں ۔ مگر وہ تمام گھوڑے ایک نہیں ہوتے۔ ان میں کچھ تیز ترین دوڑتے ہیں۔ کچھ سواری کے لئے ہوتے ہیں ۔ کچھ گھوڑے مال برداری کے لئے ہوتے ہیں۔ قد کاٹھ میں بھی وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ قدرت کے قوانین ہیں۔ آپ کیسا اور کتنا دلفریب نعرہ گھڑلیں آپ قدرت کے قوانین سے نہیں لڑسکتے۔ اگر آپ لڑتے ہیں تو آپ کو منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ سبزیاں اور جانور سوچتے نہیں۔ انسان سوچتا ہے ۔ ایک ہی خاندان میں، ایک ہی ماں باپ کی اولاد اپنی عادتوں ، رویوں ، دنیا داری میں ایک نہیں ہوتی، ایک جیسی نہیں ہوتی۔ یہ طے ہے۔ اس قدرتی حقیقت کو کوئی سیاستدان اپنے نعروں سے تبدیل نہیں کرسکتا۔

ہمارے قابل احترام سیاستدانوں کو اتنی سی بات تو سمجھ میں آتی ہوگی، اور آنی بھی چاہئے کہ ہندوستان میں رہنے والے ایک سو تیس کروڑ لوگ ہندوستانی کہلواتے ہیں۔ نیپال کے لوگ نیپالی کہلواتے ہیں۔ سری لنکا کے لوگ سری لنکن کہلواتے ہیں۔ چین میں رہنے والے ایک سو پچاس کروڑ لوگ چینی کہلواتے ہیں۔ افغانستان میں رہنے والے لوگ افغانی کہلواتے ہیں ۔ ایران میں رہنے والے لوگ ایرانی کہلواتے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک کا نام لے لیں سب لوگ اپنے اپنے ملک کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں رہنے والے برطانوی یا برٹش کہلواتے ہیں۔ فرانس میں رہنے والے فرانسیسی یا فرنچ کہلواتے ہیں۔ انڈونیشیا میں رہنے والے انڈونیشی اور روس میں رہنے والے روسی کہلواتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جانتے ہوں گے، اگر نہیں جانتے تو ان کو جان لینا چاہئے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے، جو اپنے ملک کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، اپنے ملک میں ایک زبان نہیں بولتے۔ ان کی ایک تہذیب، ایک تمدن نہیں ہوتا۔ان کی ایک ثقافت نہیں ہوتی۔ اپنی چال ڈھال، قد کاٹھ، رویوں اور عادات میں وہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان کیا سمجھتے ہیں؟ ہندوستان کے ایک سو تیس کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہندی ہے؟ ایک سو تیس کروڑ لوگوں کی ایک ہی تہذیب، ایک ہی تمدن، ایک ہی ثقافت ہے؟ کیا وہ ایک ہی طرح کے مندروں میں پوجا پاٹ کرتے ہیں؟ چنائے اور ہما چل پردیش ہیں تو ہندوستان کے صوبے، مگر ان کی ثقافت، تہذیب، تمدن، بول چال، رویے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں دونوں ریاستوں کے لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ وہ لوگ قدرت کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔ ’’ہم ایک ہیں‘‘ کا نعرہ بلند کرکے وہ ایک دوسرے کے اندر نہیں گھستے۔

تازہ ترین