کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹوں کی بنیا دپر عدالت سے ریلیف کی توقع ہے ،سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا کہ جوتے ان کو پڑیں گے جو دعویٰ کرتے ہیں مگر کرتے کچھ نہیں،میکنزم کو بہتر بنایا ہے۔
میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ کراچی پیکیج کا اعلان ہوئے چار دن ہوگئے ہیں مگر ابھی تک بیان بازی ہی کی جارہی ہے شریف خاندان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹوں کی بنیاد پر عدالت سے ریلیف کی توقع ہے۔
نواز شریف کی غیرموجودگی سے قانونی عمل نہیں رکے گا ، یہ ایک شخص کی صحت کا مسئلہ ہے امید ہے عدالت غور کرے گی، میڈیکل رپورٹس میں نواز شریف کی صحت سے متعلق اہم خدشات کا اظہار کیا گیا ہے، عام آدمی تو شاید اس صورتحال میں بستر سے اٹھ نہیں سکتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کا کیس جھوٹا اور جعلی ہے، صدر اور وزیراعظم کو جو تحفہ ملتا ہے وہ سرکار کے پاس جمع ہوتا ہے، سرکار اس تحفے کی مالیت کا اندازہ لگا کر کہتی ہے اتنے پیسے دیدیں تو آپ کی ملکیت ہوجائے گی ورنہ ہم فروخت کردیں گے، صدر یا وزیراعظم اس قد کاٹھ کے لوگ ہوتے ہیں جو کبھی کم پیسے دے کر یہ تحائف حاصل نہیں کرتے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف دس سال وزیراعظم رہے ایک پیسے کی کرپشن نہیں مل سکی، کبھی اقامہ کی بات، کبھی بیٹے نے پیسے بھیجے تو کبھی توشہ خانہ کی باتیں شروع کردی جاتی ہیں، آل پارٹیز کانفرنس کا جو فیصلہ ہوگا ن لیگ اس فیصلے کی پابند ہوگی، نواز شریف کو حکومت سے نکالا گیا لیکن ان کا سیاسی کردار قائم رہے گا۔
ن لیگ اپنے قائد نواز شریف کی سوچ کے مطابق چلتی ہے،مریم نواز کا بھی سیاست میں اپنا ایک مقام ہے، نواز شریف علاج کیلئے باہر گئے ہیں براہ راست سیاست میں حصہ نہیں لیں گے لیکن ان کی جماعت سرگرم ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک شروع ہوئی تو مریم نواز بھی سڑکوں پر ہوں گی، اپوزیشن میں سڑک یا جیل کا آپشن ہی رہ جاتا ہے، ہماری جنگ حصول اقتدار کی نہیں ہے، اپوزیشن نے متفقہ پلیٹ فارم سے عوام کو ریلیف دینے کی ٹھان لی ہے۔
وزیرتعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ اسد عمر پریس کانفرنس نہ کرتے تو شاید اتنا بڑامسئلہ نہیں ہوتا، سندھ حکومت کے منصوبوں کی بات وزیراعظم کے آنے سے پہلے ہی ہورہی تھی، ہمیں کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، وزیراعلیٰ نے میڈیا سے سندھ حکومت کے منصوبے شیئر کیے۔
کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ سندھ حکومت بہت عرصے سے جائیکا کے ساتھ کررہی تھی، جائیکا پیچھے ہٹ گیا تو سندھ حکومت کی درخواست پر کے سی آر سی پیک میں شامل کیا گیا، وفاقی حکومت کے سی آر میں تاخیر کرتی رہی جس پر ہم نے آواز بھی اٹھائی، وفاقی حکومت کے سی آر خود کرنا چاہتی ہے تو ہمیں اعتراض نہیں ہے لیکن تسلیم کرے یہ سندھ حکومت کا منصوبہ تھا۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پراجیکٹس کررہے تھے تو ان کے بھائی وزیراعظم تھے انہیں وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی،ہم بسیں نہ چلاسکے لیکن جو چیزیں ہم نے کی ہیں دیگر صوبے نہیں کرسکے، کراچی میں بس چلانے سے زیادہ ضروری صحت کا اچھا انتظام کرنا ہے، جوتے ان کو پڑیں گے جو دعویٰ کرتے ہیں مگر کرتے کچھ نہیں، وفاق اور سندھ حکومت نے مل کر کراچی کے منصوبوں پر عمل کیلئے میکنزم بہتر بنایا ہے۔
میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، نواز شریف نے ایک عدالت میں ریلیف کی درخواست کی تو دوسری عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دیدیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود نواز شریف نے سرینڈر نہیں کیا، نواز شریف نے عدالت میں اپنی میڈیکل رپورٹس جمع کروادی ہیں جبکہ جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس حوالے سے سماعت ہوگی۔
کیا عدالت نواز شریف کی درخواست منظور کرے گی یا انہیں اس کیس میں بھی مفرور قرار دیدے گی کیونکہ بدھ کو راولپنڈی کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دے کر دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ہیں جبکہ ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا جائے گا، نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ میں ان کے لندن میں ڈاکٹر لارنس کے ساتھ ایک امریکی ماہر امراض قلب ڈاکٹر فیاض شال کی ایڈوائس بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر فیاض شال کے مطابق اس وقت بھی نواز شریف کو چلتے ہوئے انجائنا کا مسئلہ ہے، ابھی بھی ان کی انجیو گرافی ہونی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ ان کا ایک اور بائی پاس ہونا ہے یا کورونری انٹرونشن ہونی ہے، مگر اس وقت نواز شریف کو کورونا انفیکشن ہونے کا خطرہ ہے اس لئے ان کا پروسیجر نہیں ہوپارہاہے، میں ڈاکٹر لارنس کی ایڈوائس سے متفق ہوں کہ نواز شریف کو کورونا کے اس ماحول میں سفر نہیں کرنا چاہئے اور اپنی انجیو گرافی ہونے تک لندن میں ہی رہنا چاہئے، کیونکہ ان کو لاحق بیماریوں کی وجہ سے کورونا ہونے کی صورت میں ان کی موت واقع ہونے یا ریسپائٹری فیلیئر کا بہت بڑا خطرہ موجود ہے۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ کراچی پیکیج کا اعلان ہوئے چار دن ہوگئے ہیں مگر ابھی تک بیان بازی ہی کی جارہی ہے، اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ اگر کام نہیں ہوا تو کراچی کے عوام سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت دونوں کو جوتے پڑیں گے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے دو سال میں پنجاب میں پانچ آئی جی تبدیل کردیئے مگر تنازع ابھی ختم نہیں ہوا، یہ تنقید ہورہی ہے کہ پنجاب پولیس کو سیاست زدہ کیا جارہا ہے، آئی جی شعیب دستگیر کو جس طرح ہٹایا گیا اس سے غلط مثال قائم ہوئی ہے ،جس افسر کی وجہ سے شعیب دستگیر کو آئی جی کے عہدے سے ہٹایا گیا اسے تحریک انصاف کی ہی حکومت نے 21ویں گریڈ میں ترقی نہیں دی تھی۔
اس افسر کیخلاف انٹیلی جنس بیورو نے پی ٹی آئی حکومت کو منفی رپورٹ دی تھی مگر اس کے باوجود انہیں سی سی پی لاہور بنایا گیا، یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے جہاں ن لیگ نے آئی جی کی تبدیلی کو چیلنج کردیا ہے، بدھ کو سابق آئی جیز کی تنظیم ایسوسی ایشن آف فارمر انسپکٹر جنرل آف پولیس کا اجلاس ہوا جہاں پنجاب میں بار بار آئی جیز کی تبدیلی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، آئی جی پنجاب کے تنازع کے بعد پولیس میں یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ پولیس افسران متضاد بیانات دے رہے ہیں۔
پنجاب کے نئے آئی جی انعام غنی نے عہدے کا چارج سنبھال کر میڈیا سے بات کی، انہوں نے گزشتہ روز ہونے والے پولیس افسران کے اجلاس کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ وہاں کسی نے بھی وفاقی اور صوبائی حکومت سے متعلق بات نہیں کی، مگر ہمارے پروگرام سی سی پی او لاہور عمرشیخ نے دعویٰ کیا کہ پولیس افسران آئی جی کی حمایت میں ان کیخلاف نہیں بلکہ حکومت کیخلاف بات کررہے تھے۔
اس تنازع میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس پولیس افسر کو حکومت نے اکیس گریڈ پر ترقی نہیں دی اسے لاہور پولیس چیف جیسی اہم پوسٹ کیوں دی گئی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیئے میں مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے دوسال میں پنجاب میں اب تک پانچوں آئی جیز کو تبدیل کرنے کی وجہ سیاسی تھی، پہلے آئی جی کلیم امام کو ڈی پی او پاک پتن تنازع کے بعد عہدے سے ہٹایا گیا، دوسرے آئی جی محمد طاہر خان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث افسران کو ہٹانے کا حکم نہ ماننے پر ہٹا یا گیا۔
امجد جاوید سلیمی کو چھ ماہ بعد ہی حمزہ شہباز کی گرفتاری کیلئے نیب کی ٹیم سے تعاون نہ کرنے پر ہٹادیا گیا اور اب شعیب دستگیر کو بھی ہٹادیا گیا جسے اپوزیشن خود سے متعلق کہہ رہی ہے،ماضی میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے آئی جی سندھ کو تبدیل کیاتو عمران خان سمجھتے تھے کہ اے ڈی خواجہ کو غلط کام سے روکنے پر تبدیل کیا گیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد پنجاب میں پولیس اصلاحات کیلئے سابق آئی جی خیبرپختونخوا ناصر درانی کی سربراہی میں کمیٹی بنادی مگر ناصر درانی نے تعیناتی کے بیس دن بعد ہی استعفیٰ دیدیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ناصر درانی نے محمد طاہر خان کو آئی جی پنجاب کے عہدے سے ہٹائے جانے پر احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا،پنجاب میں آئی جی پر آئی جی تبدیل ہوتے رہے لیکن ابھی تک پولیس اصلاحات نہیں ہوسکی ہیں، پنجاب میں بیوروکریسی میں بھی تسلسل سے تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، پنجاب میں اب تک 4چیف سیکرٹریز، 9سیکرٹریز ہائر ایجوکیشن، محکمہ آبپاشی میں 11سیکرٹریز، محکمہ خوراک میں 5سیکرٹریز تبدیل کیے جاچکے ہیں، صوبے کے زیادہ تر اضلاع میں کمشنرز، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنرز اور آر پی اوز کو مسلسل تبدیل کیا جارہا ہے، صرف ڈی جی خان میں 6کمشنرز اور 5ڈپٹی کمشنرز اب تک تبدیل کیے جاچکے ہیں، راولپنڈی میں 4کمشنرز کی تعیناتی کی جاچکی ہے۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نیب کی جانب سے 9مہینے بعد بلین ٹری سونامی منصوبہ کیخلاف باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیدیا گیا ہے، دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت بھی اس معاملہ کی تحقیقات کرواچکی ہے، تحقیقات کے بعد صوبائی حکومت نے منصوبے میں بے ضابطگیوں کا اعتراف کیا اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی۔