لاہور (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ملک میں امن و امان کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور موٹر وے پر خاتون سے زیادتی کے واقعہ کو شرم ناک قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب پولیس میں ہونیوالے تبادلے سیاسی مداخلت کی علامت ہے،حکومت ہوش کے ناخن لے، ایسا لگتا ہے محکمہ پولیس کا کنٹرول نا اہل لوگوں کے پاس ہے جس نے ملک کا امن و امان تباہ کر دیا، پولیس فورس نظم و ضبط کے بغیر کام نہیں کرسکتی،ہم سرمایہ کاری میں اضافہ کے خواہشمند ہیں تو بہترین عدالتی نظام اہم تقاضا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز لاہور میں کمرشل کورٹس کے ججز کی ٹریننگ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایسا لگتا ہے محکمہ پولیس کا کنٹرول نا اہل لوگوں کے پاس ہے جس نے ملک کا امن و امان تباہ کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ معصوم مسافروں کو ہائی وے پر سنگین جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حالیہ واقعہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت محکمہ پولیس کی ساکھ کو بحال کرے،حکومت پولیس میں کسی بھی سیاسی شخص کی مداخلت کا راستہ روکے۔ چیف جسٹس پاکستان نے واضح کیا کہ امن و امان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور پولیس کا شفاف نظام وقت کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت تک عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا جب تک پولیس فورس میں پیشہ ورانہ مہارت نہ ہو۔
انھوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں پولیس سیاسی ہو چکی ہے پولیس کے سیاسی ہونے سے ملک میں لوگوں کے جان و مال محفوظ نہیں رہےہائی وے پر بھی معصوم مسافروں کی زندگیاں محفوظ نہیں رہیں ۔
انہوں نے کہا کہ موٹر وے پر خاتون سے زیادتی کا واقعہ انتہائی شرمناک ہےہائی وے پر کوئی سکیورٹی سسٹم اور میکانزم نصب نہیں کیا گیاحکومت کو فوری طور پر پولیس کی ساکھ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت محکمہ پولیس کو مسائل اپنے حل کرنے اور نئے اقدامات کرنے دے حکومت یا سیاسی فرد محکمہ پولیس میں کسی بھی صورت کوئی مداخلت نہ کرےپنجاب میں موجودہ صورتحال پولیس کا نظام خراب کر رہی ہے سیاسی مداخلت سے کوئی بھی پولیس فورس پروفیشنل طریقے سے کام نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں ایسا لگتا ہے جیسے محکمہ پولیس کا کنٹرول نا اہل لوگوں کے پاس ہے جس نے ملک کا امن و امان تباہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس فورس نظم و ضبط کے بغیر کام نہیں کرسکتی۔
اس وقت تک عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا جب تک پولیس فورس میں پیشہ ورانہ مہارت نہ ہو۔موجودہ پولیس کی کمان غیر پیشہ ورانہ افراد کے ہاتھ میں ہے۔ تقریب سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججز نے بھی خطاب کیا۔
تربیتی ورکشاپ کے اختتامی سیشن میں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس امین الدین خان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان، جسٹس ملک شہزاد احمد، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عاطر محمود، جسٹس جواد حسن، جسٹس عالیہ نیلم، جسٹس شاہد کریم، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن و لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدور و عہدیداران، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان اور راولپنڈی کے سیشن ججز، انتظامی و پولیس افسران اور چیمبرز آف کامرس کے صدور بھی موجود تھے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آج ہمارا یہاں اکٹھا ہونا ہمارے سرمایہ کار اور کاروباری طبقے کیلئے بہترین اقدامات کو یقینی بنانا ہے۔پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار سرمایہ کاری پر ہے، کاروباری معاملات میں مختلف مراحل پر مسائل پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ کاروباری معاملات عدالتوں میں آتے ہیں تاکہ انہیں حل کیا جاسکے لیکن کاروباری معاملات کا عدالتوں میں لٹک جانا مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں بہترین عدالتی نظام موجود ہوتا ہے وہاں سرمایہ کاری بھی زیادہ آتی ہے اگر ہم سرمایہ کاری میں اضافہ کے خواہشمند ہیں تو بہترین عدالتی نظام وقت کا اہم تقاضا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کی زیر نگرانی قائم ورکنگ گروپ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ اور انوسٹمنٹ بورڈ کی رہنمائی کررہا ہے۔ کمرشل عدالتوں میں جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے بہترین کیس مینجمنٹ سسٹم بھی ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی سادہ کمرشل معاملہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں حل ہو جائے اور اس کیلئے لاہور ہائیکورٹ نے بہترین اقدام کرتے ہوئے پنجاب کے 5 اضلاع میں ماڈل کمرشل کورٹس قائم کی ہیں۔