ایک صاحب نے ایک انگریزی اخبار میں اس بات پر بہت ناراضی (جی ہاں صحیح لفظ ناراضی ہے ، ناراضگی صحیح نہیں ہے) کا اظہار کیا ہے کہ اردو والے ’’اللہ حافظ ‘‘ کیوں کہتے ہیں ، ’’خدا حافظ ‘‘ کہنا چاہیے۔ ان کے خیال میں ’’اللہ حافظ ‘‘غلط اور’’ خدا حافظ ‘‘درست ہے ۔
دوسرا اعتراض جو انھوں نے کیا وہ یہ ہے کہ اللہ حافظ ۱۹۸۶ء میں پی ٹی وی کی ایک میز بان نے اس دور کے رجحانات کے تحت کہنا شروع کیا تھا ، اس سے پہلے اردو میں یہ ترکیب پہلے کبھی استعمال ہوئی ہی نہیں تھی اور صرف خدا حافظ کی ترکیب ہی رائج تھی۔یہ دونوں اعتراض بے بنیاد ہیں ۔
عرض ہے کہ ممکن ہے کہ کچھ علاقوں یا حلقوں میں ’’خدا حافظ ‘‘ہی رائج ہویا زیادہ مستعمل ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ’’اللہ حافظ ‘‘قواعد و لغت کے لحاظ سے غلط ترکیب ہے ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی شخص کا یہ حق اس سے چھینا جاسکتا ہے کہ وہ جو لفظ یا ترکیب پسند کرے وہ استعمال کرے ، بشرطے کہ وہ درست ہو اوربے ہودہ یا نازیبا نہ ہو،جواب اس کا بھی نفی میں ہے ۔ تو پھر خدا کی بجاے اللہ اور خدا حافظ کی بجاے اللہ حافظ کے استعمال پر کیونکر پابندی لگائی جاسکتی ہے ؟ کیا یہ اظہار ِ رائے کی آزادی کے خلاف نہیں ہوگا ؟دراصل جو لوگ لفظ ’’خدا‘‘ کے استعمال پر زور ددیتے ہیں ان کے ذہن میں لفظ ’’خدا ‘‘ کاوسیع تر ثقافتی اور مذہبی مفہوم ہوتا ہے اور وہ اسی نظریے کے تحت خدا کے لفظ کو ترجیح دیتے ہیں۔
وسیع تر مفہوم میں خد اکا لفظ دیوتا یا بھگوان کے معنی میں بھی آسکتا ہے۔مختلف مستند لغات میں لفظ خدا کے معنی دیکھیے تو اردو لغت بورڈ کی لغت میںاس کے معنی مالک اور آقا درج ہیں ۔ دوسرے معنی اس لغت میں ’’بندے کے مقابل خالق ِ کائنات ،اللہ، اِیشوَر، بھگوان ‘‘بھی لکھے ہیں۔ اس کے ایک معنی دیوتا کے بھی ہیں۔ فرہنگ ِ آصفیہ نے بھی کم و پیش یہی معنی دیے ہیں۔ پلیٹس کی لغت میں خدا کے معنی مالک ، آقا، حاکم اور God درج ہیں۔ لیکن وہ اس کے معنی Supreme Being یعنی’’برتر ہستی ‘‘ بھی لکھتا ہے ۔ گویا یہ معبود کے عمومی معنی میں بھی آسکتا ہے۔ لیکن اللہ کا لفظ ، فرہنگ ِ آصفیہ اور نوراللغات کے مطابق ،خدا تعالیٰ کا اسمِ ذات ہے۔ لغت بورڈ نے بھی یہی لکھا ہے۔ اسٹین گاس کی لغت کے مطابق اللہ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ اصل میں مرکب تھا ’’ال ‘‘ اور’’ الٰہ‘‘ کا۔’’ال ‘‘ عربی کا حرف ِ تخصیص ہے اور الٰہ یعنی معبود(جس کی عبادت کی جائے )۔
دراصل لفظ خدا کسی بھی ایسی ہستی کے لیے آسکتا ہے جس کو معبود یا ایک ایسی برتر ہستی سمجھا جائے جو خالق و مالکِ کائنات ہے۔ اسے ہم مسلمان ’’ اللہ ‘‘کہتے ہیں۔لیکن لفظ ’’خدا‘‘ کے استعمال سے اس ہستی کے تصور کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے اور اس کے مفہوم میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کے تصورات ِ الٰہ بھی آجاتے ہیں۔ یعنی لفظ خدا کا مطلب ہندوئوں ، عیسائیوں یا کسی اور مذہب کا خد ابھی ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے خد اکا تصور جسے مسلمان اللہ کہتے ہیں اور اسے وحدہ ٗلاشریک سمجھتے ہیں بھی لفظ خدا سے ادا کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ لیکن جب لفظ اللہ استعمال کیا جائے تو اس سے مرادمعبود کا صرف وہ تصور ہوتا ہے جو مسلمانوں کے نزدیک درست ہے یعنی واحد اور لاشریک۔
چلیے صاحب ہمیں لفظ ’’ خدا ‘‘اور ’’خدا حافظ ‘‘ پر بھی کوئی اعتراض نہیں اور خد ااور اللہ دونوں درست ہیں ۔ اگر کسی کو کوئی ایک لفظ کسی وجہ سے زیادہ پسند ہے اور وہ ترجیحاً اسے استعمال کرتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے لیکن اللہ اور اللہ حافظ کو نادرست کہنے کی کوئی تُک نہیں ہے۔
پہلا اعتراض تو ذاتی پسند اور ترجیح کی بات ہے لہٰذا اسے چھوڑیے لیکن موصوف کا یہ فرمانا کہ اردو میں اللہ حافظ کی ترکیب تیس چالیس برس پہلے رائج کی گئی ہے نہ صرف یہ کہ بالکل غلط اور گم راہ کن ہے بلکہ اردو الفاظ اور لغت کی تاریخ سے سراسر ناواقفیت کی دلیل ہے۔
اردو میں اللہ حافظ کی ترکیب تیس چالیس سال پہلے زبردستی نہیںرائج کی گئی بلکہ یہ کوئی پونے دو سو سا ل سے رائج ہے۔اس کا ثبوت ارد وکے پرانے ادبی متون اور اردو کی بعض مستند لغات سے ملتا ہے ۔اردو لغت بورڈ کی لغت نے اللہ حافظ کے استعمال کی جو اسناد دی ہیں ان میں سے ایک ۱۸۶۸ء کی ہے اور دوسری سند جو ’’اللہ حفاظت کرے ‘‘ کے معنی میں ہے ۱۹۰۱ء کی ہے۔بورڈ نے ۱۸۶۸ء کی سند نورالغات (جس کی پہلی جلد ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی تھی) سے لی ہے۔
فرہنگ ِ آصفیہ کی پہلی جلد میں اللہ حافظ کا اندراج موجود ہے اور اس کی پہلی جلد ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی تھی۔اردو کی ایک اور لغت مخزن ِ فوائد کے نام سے ہے ۔ یہ نیاز علی بیگ نکہت دہلوی کی تالیف ہے ۔اس لغت سے فرہنگ ِ آصفیہ نے بغیر کوئی حوالہ دیے دل کھول کر ’’استفادہ ‘‘ کیا ہے ۔ مخزن ِ فوائد کا سالِ تالیف ۱۸۴۵ء ہے اور اس میں ’’اللہ نگہبان ‘‘ کی تشریح میں ’’اللہ حافظ ‘‘ درج ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی اللہ حافظ کی ترکیب رائج اورمقبول رہی ہے۔
ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’اللہ حافظ ‘‘نہ صرف بالکل درست ہے بلکہ یہ کم از کم پونے دوسو سال سے اردو میں رائج ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ اسے ۱۹۸۶ء سے رائج سمجھتے ہیں ان کے پاس کیا دلیل ہے ؟ درخواست ہے کہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند یا ذاتی نظریات کے تحت کسی خاص لفظ یا ترکیب کو ضرور استعمال کیجیے لیکن اپنی پسند کے برخلاف لفظ یا ترکیب کو غلط ثابت کرنے کے لیے تاریخ اور لغت کوتو مسخ نہ کیجیے۔