• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برسلز: کورونا سے کاروباری نقصان، پاکستانی تاجروں کی مقامی حکومت کے سربراہ سے ملاقات

یورپین دارالحکومت برسلز اور اس کے گرد و نواح میں موجود پاکستانی بزنس کمیونٹی کا مقامی حکومت کے ساتھ سب سے بڑا اجلاس گذشتہ روز برسلز میں منعقد ہوا۔

جس میں مقامی پاکستانی تاجروں نے کوویڈ۔ 19 کے دوران اپنے کاروبار کو پہنچنے والے نقصانات کے اعداد و شمار مقامی حکومت میں کاروبار، روزگار اور دیگر کئی شعبوں کے سربراہ فابین مینگین کے سامنے پیش کئے۔ 

اس اجلاس کا مقامی حکومت کے ساتھ اہتمام فرینڈز آف برسلز کے صدر، مقامی کمیون میں پولیس ایڈوائزر اور اسی میونسپلٹی کے پاکستانی نژاد کونسلر ناصر چوہدری نے کیا تھا۔

اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے ناصر چوہدری نے کہا کہ بیلجیئم میں پاکستانی کمیونٹی اپنے چھوٹے کاروباروں کے ذریعے مقامی سماج میں اپنے محنتی ہونے کی شناخت رکھتی ہے۔ اس کے ارکان کسی بھی ذاتی مجبوری کے علاوہ کسی حکومتی امداد کو حاصل کرنے پر یقین نہیں رکھتے اور دوسروں سے زائد ٹیکس دیکر اس سماج کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے ہال میں موجود حاضرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ غیر معمولی حالات میں حکومت ان کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرے۔ 

اس دوران پاکستانی تاجروں کی جانب سے مونسیو فابین کو بتا یا گیا کہ بہت سے تاجروں کا کاروبار ایسے علاقوں میں ہے جہاں ساری رونق سیاحوں کے دم سے تھی۔ لیکن 2015 کے دھماکوں کے بعد سے برسلز میں سیاحت کی صنعت روبہ زوال ہے۔ لیکن رہی سہی کسر اس کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال نے پوری کردی ہے۔ جبکہ دوسری جانب کنوینینس اسٹورز کے دکانداروں پر نہ صرف دوسروں سے زائد ٹیکس ہے بلکہ ان سے سالانہ 12500 خصوصی ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں بیلجئین حکومت کی جانب سے اس سیکٹر کے کام کرنے کے اوقات کار بھی انتہائی محدود کر دئیے گئے ہیں۔ جس کے باعث کاروباری اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں حکومت خصوصی اقدامات کرے اور فوری طور پر غیر معمولی ٹیکسوں کی وصولی روک دے۔

اس دوران تاجروں کی جانب سے یہ بات نوٹ کی گئی انہی جیسی مصنوعات فروخت کرنے والے دیگر برانڈز پر وقت کی کوئی قدغن نہیں۔ جبکہ چھوٹے کاروباروں کے ساتھ یہ سلوک غیر معمولی اور نا انصافی پر مبنی ہے۔ جس کے جواب میں مونسیو فابئین نے شرکائے اجلاس کو بتا یا کہ چھوٹے خصوصی طور پر کنوینینس اسٹور سیکٹر پر وقت کی قید کا معاملہ وفاقی حکومت کا ہے۔ جو اس نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے کیلئے اٹھایا ہے۔

اس لئے وہ شرکائے اجلاس کا مسئلہ حکومت تک پہنچا دیں گے۔ خصوصی ٹیکس کے حوالے سے وہ اس مسئلے کو مقامی حکومت کے اجلاس میں پیش کردیں گے۔ زائد ٹیکس کے سوال پر ان کا جواب یہ تھا کہ یہ سیکٹر اپنی اشیاء عمومی طور پر کیونکہ زائد قیمت پر فروخت کرتا ہے اس لئے ٹیکس بھی اسی وجہ سے زائد ہیں۔ جواب میں انہیں تاجروں کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ یہ بات درست نہیں بلکہ انکی کاروباری فروخت کی جگہوں کا کرایہ بھی کیونکہ دوسروں سے زیادہ ہے اس لئے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے انہیں اشیا زیادہ قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے۔

اس ملاقات کے دوران حکومتی نمائندے کو تمام چھوٹے کاروباریوں کی جانب سے ایک دستخط شدہ یاد داشت بھی پیش کی گئی۔

اپنے اختتامی کلمات میں کونسلر ناصر چوہدری نے مونسیو فابئین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کمیونٹی جب سے بیلجیئم میں مقیم ہے یہ اس طرح کے کسی بھی اجلاس میں ان کی پہلی بھر پور شرکت ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے لوگ امداد کیلئے حکومت کی جانب دیکھنے کی بجائے محنت کرتے ہیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اس محنت پر کوئی شرم نہیں۔ ہم اپنی سوسائٹی میں اپنے ٹیکسوں کی ادائیگی کے ذریعے اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ مقامی حکومت بھی اس کی قدر کرتے ہوئے ان کے جائز مطالبات کو پورا کرے گی۔

اجلاس میں پاکستانی بزنس کمیونٹی کی جانب سے ملک اجمل، سردار صدیق خان، عامر افضل، حسن شاہ، عمران، مرزا شبیر جرال اور دیگر نے اپنے مطالبات پیش کیے۔

یاد رہے کہ گذشتہ 40 سال میں اپنے مطالبات کو لیکر کسی بھی حکومتی ادارے یا شخص کے ساتھ پاکستانی بزنس کمیونٹی کی یہ پہلی میٹنگ تھی۔ جس کیلئے کونسلر ناصر چوہدری نے فعال کردار ادا کیا۔

تازہ ترین