(گزشتہ سے پیوستہ)
رابعہ سلطانہ قاری نے ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف مظاہرے بھی کئے تھے اور شدید زخمی بھی ہوئی تھیں، وہ انسانی حقوق کی بڑی علمبردار وکیل تھیں اور وکلا برادری میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔
رابعہ سلطانہ نے شادی نہیں کی تھی بلکہ وہ جس فلیٹ میں رہتی تھیں وہ فلیٹ بھی انہوں نے ایک بچی کے نام کر دیا تھا۔ جبکہ راجہ غضنفر علی ایڈووکیٹ نے بوٹا سنگھ جمیل احمد کی دوسری بیٹی کو کافی زمین دے دی تھی۔ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے ایک ریٹائرڈ ڈائریکٹر سیف اللہ خالد کے بقول انہوں نے بھی ان دونوں معزز وکلا کے نام سنے ہیں بلکہ ان کے رشتہ دار وکلا کا دفتر بھی رابعہ سلطانہ کے برابر تھا، ہم خود بھی اس عمارت میں کئی بار گئے تھے اور رابعہ سلطانہ ایڈووکیٹ کا بورڈ پڑھا تھا، ہمارے اس کالم کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر رشید اعرابی مرحوم جو ایم بی بی ایس کے ساتھ بی ڈی ایس کرنے والے لاہور کے پہلے ڈاکٹر تھے، جن کی کلینک گڑھی شاہو میں ڈینٹل چیئر تھی، وہ بیک وقت جنرل فزیشن اور ڈینٹل سرجن بھی تھے، انہوں نے پچاس برس تک پریکٹس کی۔ وہ مرحوم غنی اعرابی ڈاکٹریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان اور ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم پاکستان کے غالباً پہلے فزیشنز ڈائریکٹر کے بھائی تھے۔ ان کے بیٹے آغا جاوید رشید اعرابی کا فون آیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کی بیٹیوں کو جانتے ہیں اور ایک عرصہ تک ان کا ان سے رابطہ رہا اور حضرت علی ہجویری ؒکے مزار اقدس کے عقب میں موہنی روڈ پر ایک بیٹی کی رہائش بھی رہی تھی، بہرحال اس شہر لاہور کے سینے میں کئی داستانیں اور قصے دفن ہیں۔ اس کی ہر سڑک اور محلہ ایک تاریخ ہے۔ موہنی روڈ بھی ایک تاریخی سڑک ہے، اس پر پھر بات کریں گے۔ لاہور کے تعلیمی اداروں خصوصاً گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی ) کنیئرڈ کالج، ایف سی کالج، لاہور کالج برائے خواتین (اب یونیورسٹی) اور کوئین میری کالج (پرانا نام فاطمہ گرلز اسکول) گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) اور دیال سنگھ کالج کی ڈرامیٹک کلبس اور سوسائٹیاں قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے لاہور میں بڑے خوبصورت اور معیاری ڈرامے پیش کئے۔
گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کا ہال اور اسٹیج لاہور کے تمام اسکولوں سے خوبصورت اور بڑا تھا، ہم نے اس ہال کو کبھی اس کے عروج کے زمانے میں دیکھا تھا۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈرامیٹک سوسائٹی کا بڑا نام تھا۔ گورنمنٹ کالج کے طلبا نے بڑے خوبصورت ڈرامے پیش کئے بلکہ بعض ڈرامے تو کئی روز تک دکھائے جاتے تھے۔ لاہور کی تعلیمی و ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں گورنمنٹ کالج لاہور کا جو حصہ ہے وہ کسی اور تعلیمی ادارے کا نہیں۔ آج آپ کو پوری دنیا میں راوین کہیں نہ کہیں ضرور مل جائیں گے کیا کالج تھا جب سے یونیورسٹی بنا ہے اس کا تشخص ہی ختم ہو گیا، کیا عجیب نام رکھ دیا گیا ہے، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور لاہور کالج یونیورسٹی، تعلیمی اداروں کے نام ان کی پہچان ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور قدیم روایات کا امین اور درس و تدریس کا بہترین ادارہ رہا ہے۔ لاہور میں تھیٹر کا مرکزی اسٹیج ریٹی گن روڈ پر واقع بریڈلا ہال تھا، آج یہ ہال تباہی کے کنارے پر ہے۔ بریڈلا ہال ہمارے گھر کے عقب میں واقع تھا، یہ بڑا تاریخی ہال تھا، اس میں آزادی کے لئے بڑے جلسے ہوئے تھے، کہا جاتا ہے کہ قائداعظم ؒبھی اس ہال میں آئے تھے، آج کل یہ ہال متروکہ اوقاف بورڈ (جسے کبھی ہندو اوقاف بھی کہا جاتا تھا) کے زیر انتظام ہے، بھگت سنگھ کی رہائی کی تحریک بھی یہاں سے شروع ہوئی تھی، لاہور کے قبضہ مافیا کی نظریں ایک مدت سے اس تاریخی ہال پر لگی ہوئی ہیں کہ کب یہ ہال خود بخود گر جائے اور اس جگہ پر قبضہ کر لیں۔ اس ہال میں ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، آج سے پچاس برس قبل اس ہال کے ارد گرد بڑی وسیع جگہ تھی، متروکہ اوقاف بورڈ کے سابق چیئرمین نے اس ہال کو دوبارہ استعمال میں لانے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی مگر موقع نہ ملا۔ اگرچہ ریٹی گن روڈ اور ٹیپ روڈ پر ہندوئوں، سکھوں اور انگریزوں کی بڑی قدیم اور بہت بڑی کوٹھیاں تھیں، یہ رہائشی اپنے زمانے کا بہترین علاقہ تھا آج وہاں کسی بھی کوٹھی کا نام ونشان نہیں۔ ایک تاریخی عمارت ہنڈا بلڈنگ ہوتی تھی، بڑی خوبصورت عمارت تھی۔ اس ریٹی گن روڈ پر پارسیوں کا عبادت خانہ تھا، ٹیپ روڈ پر بھی دو پارسی بہنیں رہتی تھیں جو ہماری والدہ کی استاد تھیں۔ ٹی بی سٹینا اور دوسری بہن کا نام ہم بھول گئے ہیں، دونوں نے شادی نہیں کی تھی، شام کو یہ دونوں بہنیں اپنی وسیع کوٹھی میں صندل کی لکڑی جلایا کرتی تھیں جس سے پورا علاقہ مہک جاتا تھا، کارپوریشن کی بیل گاڑی پانی والے گول ٹینکر لے کر آجاتی تھی جو ان دونوں سڑکوں پر چھڑکائو کرتی تھیں کیا، خوبصورت لاہور تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سامنے لاہور کارپوریشن کا بڑا سرکاری نل ہوتا تھا جہاں سے کارپوریشن کے واٹر ٹینکر اور یہ بیل گاڑیاں پانی بھر کر لاہور کی مختلف سڑکوں پرچھڑکائو کرتے تھے۔ ایک قدیم نل آج بھی شملہ پہاڑی کے نیچے ہے جبکہ ہر دوسرے دن ریٹی گن ٹیپ روڈ پر لاہور کی کئی سڑکوں پر سفید چونا پھینکا جاتا تھا تاکہ جراثیم مر جائیں۔
کبھی لاہور کے میو اسپتال، سروسز اسپتال اور جنرل اسپتال میں بھی روزانہ سفید چونا پھینکا جاتا تھا تاکہ ماحول جراثیم سے پاک رہے۔ پتا نہیں کس عقل کے دشمن نے یہ حکم جاری کیا کہ شہر لاہور میں پانی کا چھڑکائو بند کر دو۔ کیا بنا ان کئی بیل گاڑیوں کا اور پانی کے ٹینکروں کا، سب کچھ تو فروخت کر دیا اور پھر کرپٹ لوگوں نے اس شہر لاہور کی جڑوں میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ ہر شاندار کام جو انگریزوں نے شہریوں کی بھلائی اور بہتری کے لئے شروع کئے تھے ان کو روک دیا گیا۔ (جاری ہے)