• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگل کی دنیا پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین جانتے ہیں کہ جانور تنہائی پسند نہیں ہوتے بلکہ گروہ یا ریوڑ کی شکل میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ جانور لڑتے جھگڑتے بھی رہتے ہیں مگر جب کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو جتھے، غول اور جھنڈ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جنگل کے کوے جنہیں مولاناابوالکلا م آزاد نے ’’دریوزہ گران شہر‘‘ کا لقب عطا کیا تھا، وہ تازہ ترین خبر لائے ہیں کہ جنگل کے تمام چرند پرند اپنے گھونسلوں، مسکن، کچھار، نیستاں اور بھٹ کو بچانے کے لئے ایک ہو گئے ہیں۔ نئی شیرازہ بندی کی باتیں تو مسلسل ہو رہی تھیں مگر سوال یہ تھا کہ کیا جنگل کے سابق بادشاہ شیر کی دھاڑ بھی سنائی دے گی؟ سیاہ اور سفید دھاریوں والے زیبرے بھی منہ بسور کر ایک طرف بیٹھے تھے کیونکہ جب وہ ڈنکی کنگ کے خلاف باہر نکلے تو جنگل کے دو طاقتور ترین گروہ شیر اور ہاتھی وعدہ کرکے پیچھے ہٹ گئے اور ان کا بھرپور ساتھ نہیں دیا۔ اب ان دو دھاری زیبروں کا مطالبہ تھا کہ جب تک ہاتھی شیر کو شرکت پر رضامند نہیں کرتے، وہ کسی نئی حکمت عملی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ نوجوان ہاتھی نے پہل کی اور بوڑھے شیر کو آمادہ کرلیا تو سب کے گلے شکوے دور ہو گئے۔ جنگل میں سب سے زیادہ تعداد بھیڑوں کی ہے مگر وہ بھیڑیوں سمیت تمام خونخوار درندوں سے خوف زدہ رہتی ہیں کیونکہ یہ مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتی ہیں۔ سہمی ہوئی بھیڑیں اس نئی پیشرفت پر خوف زدہ ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں کہیں وہ گھاس کی مانند کچلی نہ جائیں۔

شیر کو جنگل چھوڑے دس ماہ ہو چکے، اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا۔ شروع میں یوں لگتا تھا کہ جنگل کے حالات ڈنکی کنگ کے قابو میں نہیں آئیں گے، بیورو کریسی کے منہ زور گھوڑے پر سواری آسان نہیں ہوگی، تجارت اور کاروبار کے ذریعے جنگل میں منگل کرنیوالے اونٹ بہت جلد بددل ہو جائیں گے، وقت کیساتھ ساتھ اس کی مقبولیت کم ہوتی جائے گی، خشک سالی کے باعث بھیڑیں بھی تنگ آجائیں گی، اسے آگے لانے والے طاقتور ترین بھیڑیے بھی بہت جلد ہار مان لیں گے اور چند ہی ماہ میں اس کا دھڑن تختہ ہو جائے گا مگر یہ سب باتیں خیال خام ثابت ہوئیں۔ اپوزیشن میں بیٹھے شیر بھیگی بلی بن گئے، ہاتھی اپنے مسکن تک محدود ہو کر رہ گئے، زیبرے بھی دل برداشتہ ہو کر بیٹھ گئے، تنقید کرنے والے چند بندروں کو شمالی علاقہ جات کی سیر کروائی گئی تو ان کی اکثریت نے بھی حالات کے جبر کے پیش نظر خاموشی اختیار کرلی اور بیچاری بھیڑیں تو ویسے ہی گلہ بانوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔ کئی مواقع پر جنگل کی نئی سرکار نے اپوزیشن میں بیٹھے ان طاقتور ترین جانوروں کو چاروں شانے چت کردیا جو خود کو بہت پاٹے خان سمجھتے تھے۔ ایسا ہی ایک تماشا چند روز پہلے بھی دیکھنے کو ملا۔ جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ ان تِلوں میں تیل نہیں اور نئی سرکار کو گرانا کوئی کھیل نہیں مگر اب اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ بوڑھے اور بیمار شیر نے انگڑائی لیکر جنگل کی سیاست میں متحرک اور فعال ہونے کا فیصلہ کر لیا؟ گیدڑ تو پریشان ہیں ہی ،بھیڑیے بھی شش وپنج میں مبتلا ہیں اور لومڑیوں سے بلا کر پوچھا جارہا ہے کہ اندر کی کہانی کیا ہے؟ کیا طویل وقفے کے بعد اپنے چاہنے والوں کو کوئی نیا سبز باغ دکھانے کیلئے یہ دوڑ دھوپ کی جا رہی ہے یا پھر واقعی سرکار گرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے؟

شیر کو پہلی بار اقتدار سے نہیں نکالا گیا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر اس سے بادشاہت چھینی گئی مگر شیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ حالات و واقعات کی مناسبت سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ شیر دھاڑنے کے بعد اپنے مخالف کو پچھاڑے بغیر نہیں لوٹتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیر کو جان کا خطرہ محسوس ہو تو اسے دم دبا کر بھاگنے میں بھی لاج نہیں آتی کیونکہ یہ Live to fight another dayکے فلسفے پر یقین رکھتا ہے۔ یہ حالات کی مناسبت سے پسپائی اختیار کرکے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا قائل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کئی بار جنگل سے بیدخل ہونے کے باوجود یہ پہلے سے زیادہ توانا ہو کر لوٹ آیا بتایا جاتا ہے کہ شیر نے یقین دہانیاں پوری نہ ہونے اورمسلسل دیوار سے لگائے جانے پر ایک بار پھر Come backکرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگل میں ہر تیسرے سال اس اعلیٰ ترین جھنڈ کا انتخاب ہوتا ہے جو جنگل کا دستور طے کرتا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ جب بوڑھا شیر برسراقتدار تھا تو تب بھی یہ کہا جاتا تھا کہ مارچ 2018آنے سے پہلے ہی کوئی ایسا بندوبست کیا جائے گا کہ بوڑھے شیر کاجتھہ اس اعلیٰ ترین جھنڈ میں اکثریت حاصل نہ کرسکے اور پھر یہ مقصد کسی حد تک حاصل کرلیا گیا۔اب مارچ 2021ءمیں ایک بار پھر یہ مرحلہ آرہا ہے۔ اگر شیر، ہاتھی اور دو دھاری زیبرے یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو موجودہ سرکار کو اس اعلیٰ ترین جھنڈ میں بھی عددی برتری حاصل ہو جائے گی اور اسکے بعد اقتدار پر موجودہ سرکار کی گرفت بہت مضبوط ہوجائیگی۔ یہی وجہ ہے کہ بوڑھے شیر اور معمر ہاتھی نے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں یہ بات بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ مارچ تک کوئی تبدیلی نہ آئی تو پھر موجودہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے سے نہیں روکا جا سکے گا لیکن اس مقصد کے حصول کیلئے شیر کو خطرہ مول لے کر جنگل میں واپس آنا ہوگا، سوال یہ ہے کہ کیا شیر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر واپس آئے گا؟

تازہ ترین