پیرو کے جنگلا ت میں پائی جانے والی چھوٹی سی ’’غلیلی مکڑیوں ‘‘کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ شکار کرنے کے لیے وہ اپنے جالے کو غلیل کی طر ح استعمال کرتی ہیں ،خود کو انتہائی تیز رفتاری سےفائر کرتی ہیں اور اُڑتے ہوئے شکار کو پکڑ لیتی ہیں ۔بلکہ فائر کے دوران یہ مکڑیاں 1300 میٹر فی مربع سیکنڈ کی شرح سے اپنی رفتار بڑھاتی ہیں جو شکار پر حملہ آور ہونے والے چیتے کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ماہرین کے مطابق دوران ِپرواز یہ اپنے شکار کی طرف 4 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بڑھتی ہیں اور ان کے جسم کومعمول کی قوت ِثقل کے مقابلے میں تقریباً 130 گنا زیادہ ثقلی قوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کا تعلق مکڑیوں کے ’’تھیریڈیو سوماٹیڈائی‘‘ (Theridiosomatidae) خاندان سے ہے ،جس میں شامل مکڑیوں کی جسامت 1.5 ملی میٹر سے لے کر 3.0 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔ اپنی چھوٹی جسامت کے باوجود، یہ مکڑیاں اپنے شکار پر بہت تیزی سے پرواز کرتے ہوئے حملہ کرتی ہیں۔کیا یہ سارے کام ویسی ہی کرتی ہیں ؟اس بارے میں جاننے کے لیے جیورجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (جیو رجیا ٹیک ) کے سائنس داں ڈاکٹر سعد بھملا نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پیرو کے جنگلات کا رُخ کیا۔ان کے پاس تیز رفتار اور حساس کیمرے تھے جو رات کی تاریکی میں بھی آسانی سے دیکھ سکتے تھے ۔یہ اس لیے ضروری تھا ،کیوں کہ یہ مکڑیاں رات کے وقت ہوا میں اُڑتے ہوئے ،مچھروں اور مکھیوں کا شکار کرتی ہیں۔
کئی مہینے جنگلات میں تحقیق کرنے کے بعد ماہرین نے ان پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ تھر یڈسو ماٹیڈ ائی قسم کی مکڑیاں شکار کرنے کے لیے جالا بناتی ہیں لیکن جب انہیں کسی مچھر یا مکڑی کا شکار کرنا ہوتا ہے تو وہ جالے کے بالکل درمیان میں پہنچ جاتی ہیں اور جالے کے پیچھے موجود کسی شاخ یا پتھر پر اپنے جال کا تار پھینکتی ہیں۔ جیسے اسپائیڈر مین کرتا ہے۔مکڑی کا پھینکا ہوا باریک تار اس پتھر یا لکڑی سے چپک جاتا ہے جسے یہ مکڑی واپس کھینچنا شروع کردیتی ہے۔
اس کے ردِعمل میں جالے پر تناؤ بڑھتا ہے اور وہ مخالف سمت میں مڑ کر مخروطی(آئسکریم کون جیسی) شکل میں آنے لگتا ہے اور پھر اچانک، ایک خاص موقعے پر، مکڑی اس تار کو توڑ دیتی ہے اور جالہ بہت تیزی سے اپنی اصل پوزیشن میں واپس آجاتا ہے۔ لیکن اسی دوران یہ جالہ زبردست قوت سے اس مکڑی کو ہوا میں اچھال دیتا ہے اور وہ تیزی سے اڑتی ہوئی اپنے شکار پر حملہ کر دیتی ہے۔صرف چند سیکنڈ میں مکمل ہوجانے والے اس عمل میں مکڑی باقاعدہ اپنے شکار کا نشانہ لیتی ہے اور اسی کے حساب سے اپنے جالے میں خم پیدا کرتی ہے۔یعنی کسی نہ کسی طر ح مکڑی یہ جان لیتی ہےکہ کس سمت میں اور کتنے فاصلے پر موجود شکار کو پکڑنے کے لیے جالے میں کس قدر تنائو ہونا چاہیے اور اسے کس سمت میں خم دینا چاہیے۔