کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے رحمٰن بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنادی۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کراچی میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی جس میں رؤف صدیقی، ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبدالستار کو عدم شواہد کی وجہ سے بری کر دیا گیا، باقی 4 ملزمان کو سہولت کاری پر عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کا مرکزی ملزم حماد صدیقی مفرور ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 2 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، کیس میں ملزمان زبیر چریا اور عبدالرحمٰن عرف بھولا کے خلاف 400 عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ بھی کیے گئے ہیں۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں استغاثہ کی جانب سے دیئے گئے بیان کے مطابق 11ستمبر 2012ء کو سائٹ ایریا میں واقع علی انٹر پرائزیز میں آگ لگائی گئی تھی جس کے نتیجے میں فیکٹری میں آگ لگنے سے 263 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، 8 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک 23 لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔
کیس میں اب تک 186 مرتبہ سماعت ہوچکی ہیں جبکہ کر کیس میں استغاثہ کی جانب سے 400 گواہ پیش کیے جا چکے ہیں ۔
دوسری جانب فیکٹری مالکان نے دبئی سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں فیکٹری مالکان کی جانب سے ایم کیو ایم کی جانب سے 25 کروڑ روپے بھتہ طلب کرنے کی تصدیق کی گئی تھی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق اس کیس میں سزا پانے والے ملزم رحمٰن بھولا کو انٹر پول کے ذریعے بنکاک سے گرفتار کیا گیا تھا، رحمان بھولا کو 2016 میں ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررزم ونگ نے گرفتار کروایا تھا ۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق رحمٰن بھولا گرفتاری سے قبل ملیشیا میں رہ رہا تھا، رحمٰن بولا گرفتاری کے وقت بنکاک سے ساؤتھ افریقا فرار ہورہا تھا، ملزم کی اطلاع ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررزم ونگ نے انٹرپول نے دی تھی۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ انٹرپول نے اس اطلاع پر کارروائی کر کے ہوٹل سے رحمٰن بھولا کو گرفتار کیا گیا تھا، گرفتاری کے تین دن بعد رحمٰن بولا کو کراچی منتقل کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں کیس کے سماعت کے دوران ملزم رحمٰن بھولا نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔
واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012ء کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس دن بلدیہ ٹاؤن میں واقع ڈینم فیکٹری جل کر خاکستر ہو گئی تھی، بھڑکتے شعلوں نے روزی کمانے کی غرض سے گھروں سے نکلنے والے سیکڑوں ملازمین کو زد میں لے لیا تھا۔
ملازمین فیکٹری میں اپنے اپنے کام میں مصروف تھے کہ دن دیہاڑے ظالموں نے فیکٹری کو آگ لگادی، آگ پھیلنے سے فیکٹری میں بھگدڑ مچ گئی۔
اس واقعے میں 259 افراد جھلس کر اور دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے تھے جبکہ تقریباً 50 افراد زخمی ہوئے تھے، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتش زدگی کے واقعے کو 8 برس ہو چکے ہیں۔
ابتدائی طور پر آتشزدگی کے اس واقعے کو حادثاتی قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم نے اسے تخریب کاری قرار دیا اور تحریری رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری میں آگ لگائی گئی تھی۔
مقدمے میں نامزد ملزم رحمٰن بھولا کو 2016ء میں گرفتار کیا گیا تھا، ملزم نے پہلے جرم کا اعتراف کیا پھر اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔
رحمٰن بھولا نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے حماد صدیقی کے کہنے پر ہی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی تھی لیکن بعد میں رحمٰن بھولا نے عدالت میں بیان دیا کہ پولیس نے عدالت میں پیش کر کے اس سے زبردستی بیان دلوایا۔
سال 2020ء میں سانحے کی جے آئی ٹی رپورٹ بھی منظرِ عام پر آ گئی، جی آئی ٹی رپورٹ کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر ایک بڑے سانحے کے بجائے عام قتل کے کیس کی طرح درج کی گئی۔
دباؤ کے زیرِ اثر پولیس نے بلدیہ فیکٹری سانحے کے کیس کو جانبدارانہ انداز میں چلایا۔
بلدیہ فیکٹری کیس کے تفتیشی افسر کی گفتگو
بلدیہ فیکٹری کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ساجد سدوزئی نے میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مظلوموں کے ساتھ جو ظلم ہوا کوشش یہی تھی کہ انصاف ملے، کراچی: ہماری کوشش رہی کہ نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو، خوشی ہے کہ کیس کا فیصلہ انصاف پر مبنی تھا، ہماری کوشش تھی کہ ہر پہلو پر بہتر تحقیقات کریں۔
انہوں نے کہا کہ تمام کارروائی میں پراسیکیوشن اور مختلف ادارے شامل تھے، کیس میں تمام قانون نافذکرنے والے اداروں کی سپورٹ حاصل رہی،
فیکٹری مالکان کو ملزم نامزد نہ کرنا جے آئی ٹی کا فیصلہ تھا، پولیس انفرادی طور پر فیصلہ نہیں کرسکتی تھی۔جے آئی ٹی میں فیکٹری مالکان کو متاثرہ فریق قرار دیا گیا۔
ایک سوال کہ جے آئی ٹی میں شامل افراد کو کیس کی چارج شیٹ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اور لیگل قانونی طریقے کار میں فرق ہوتا ہے، کوشش کی کہ اصل ملزمان کو نامزد کرکے سزا دلوائی جائے۔