• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاہدہ کراچی کا مطلب یہ نہیں گلگت بلتستان کو صوبہ بنا دیا جائے، پروفیسر ظفرخان

لوٹن(اسرار راجہ) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ پروفیسر راجہ ظفر خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کتنی عجیب دلیل ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اس وقت تک حقوق نہیں مل سکتے جب تک گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ نہ بنے، دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کے زیرانتظام 28اپریل 1949 کے حکومت پاکستان اور حکومت آزاد جموں و کشمیر کے درمیان معاہدہ کراچی کے تحت انتظامی امور کے حوالے سے عملداری میں آیا ۔اس معاہدے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنا دیا جائے،تیسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان دیگر ریاستی خطوں کی طرح 14 اگست 1947 کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اور جب یکم جنوری 1948 کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش ہوا تو عالمی ادارے کے سامنے اسی جموں و کشمیر کا مقدمہ زیر بحث آیا جس کے جغرافیے میں جموں و کشمیر کی تمام اکائیاں بشمول گلگت بلتستان شامل تھیں۔ چوتھی اہم بات، گلگت بلتستان کو پاکستان فیڈریشن کا عبوری صوبہ، ورچوئل صوبہ، فل صوبہ جیسا بھی صوبہ بنانے کی ایکسرسائز کے حوالے سے جو بھی الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں، اس کا کُل حاصل گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنا ہی بنتا ہے ۔ ایسا اقدام ہو بہو بھارت کی مودی سرکار کے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے حصے بخرے کرنا اور غیر قانونی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف 5 اگست 2019 کو بھارتی یونین یعنی وفاق میں ضم کرنے جیسا ہی ہے،مسئلہ کشمیر ریاستی عوام کے حق خودارادیت و حق خود اختیاری اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق غیر قانونی ہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کو مکمل طور پر ختم کرنے کے مترادف بھی ہوگا،پانچویں بات یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے نہ صرف آر پار کے کشمیری عوام کو بلکہ 22 کروڑ پاکستانیوں کو بھی اب تک مسئلہ کشمیر پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، لہٰذا وقت کی اشد ضرورت ہے کہ کشمیری اپنی تمام سیاسی و نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ریاست کو بچانے کیلئے یکسو ہو جائیں ورنہ گلگت بلتستان کا صوبہ بننے کی صورت میں ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت اور ریاستی تشخص کا بحال اور قائم رکھنا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ ناممکن ہو جائے گا ۔

تازہ ترین