• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری دنیا میں کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے سبب بوڑھوں کو خاص طور پر احتیاط کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا ،کیوں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی قوت ِمدافعت کمز ور ہو جاتی ہے اور کوئی بھی وائرس ان کےجسم پر جلدی حملہ کر سکتا ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھی غذائیت سے آپ اپنی قوت مدافعت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔انسانی قوت مزاحمت انسانی دماغ سے باہر خلیوں اور مالیکیو ل کا ایک الجھاہوا نیٹ ورک نظام ہے۔ جو بہت سے خطرناک وائرسوں اور جراثیم سے ہمارا دفاع کرتا ہے۔ اس کے اجزا خطرےکی خبر بھی دیتے ہیں، اس میں اضافہ سے پریشان بھی کرتے ہیں ،پرُسکون بھی بناتے ہیں اور تبدیل بھی کرتے ہیں۔ 

یہ وہ نظام ہے جو حیاتیات کے پروفیسرز کو ،اگر وہ خود امیونولاجسٹ نہ ہو تو ان کوبھی الجھا دیتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ خود لفظ امیونیٹی ((immunity بھی لوگوں کی الجھن کا باعث ہے۔ جب اس کو امیونو لاجسٹ (ماہرین قوت مزاحمت) بیان کرتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ نظام کسی جرثومہ کے (زہریلے) حملے کے بعد جسم میں یاتو اس کی اینٹی باڈیز(تریاق) پیدا کرتا ہے یا جسم کے مدافعتی خلیوں کو یکجا کرتاہے۔ لیکن جب دوسرے لوگ اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ وہ انفیکشن سے محفوظ ہیں۔

جسم کی طاقتور قوت مزاحمت ہی کینسر جیسے موذی مرض سے بھی دفاع کرتی ہے۔اس نظام میں وبائوں اور بیماریوں سے د فاع کے لئے بہت سے خلیے ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ جس کاہر خلیہ جسم میں داخل ہونے والے ہر قسم کے نقصان دہ خلیوں کی شناخت و نشان زدگی کے بعد ان کو تباہ کرنے کا انتہائی مفید کام انجام دیتا ہے۔

بی سیل نقصان دہ حملہ آور خلیوں کے خلاف کار آمد اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔ جن میں سے ہرایک بی خلیہ ایک خاص قسم کی اینٹی باڈی بناتا ہے۔ مثلا ًایک بی خلیہ عام نزلہ ،زکام کے خلاف کار آمد اینٹی باڈی پیدا کرتا ہے۔جب کہ کینسر کے خلاف مدافعت کرنے والے خلیے اس کے خلاف ایسی اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جو کینسر کے خلیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان کے معمول میں خلل ڈال کر ان کے خلاف مدافعت کا عمل شروع کرتا ہے۔سی ڈی 4مددگارٹی سیل۔ یہ خلیے دوسرے خلیوں کو مدد کے لیے سگنل دیتے ہیں( جیسے ۔سی ڈی 8قاتل ٹی سیل) اور اس کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ ممکنہ طور پرجلد سے جلد انتہائی مہارت سے نقصان دہ خلیوں کو تباہ کردیں۔ اینٹی باڈی بنانے سے پہلے یہ خلیے بی سیل سے رابطہ کرتے ہیں۔

سی ڈی 8قاتل ٹی سیل۔ یہ ہزاروں ایسے نقصان دہ خلیوں کو تباہ کرتے ہیں جو ہر روز وائرسوں سے متا ثر ہوتے ہیں۔ یہ کینسر کے خلیوں کو نشانہ بناکر ان کو تباہ کردیتے ہیں۔ڈینڈریٹک سیل۔ یہ بیرونی اور کینسر کے خلیوں کو ہضم کرلیتے ہیں اور ان کی پروٹین ان کی سطح پر ظاہر کردیتے ہیں ۔جہاںان کو دوسرے مدافعتی خلیے بہتر طور پر شناخت کرنے کےبعد نقصان دہ خلیوں کو تباہ کردیتے ہیں۔میکروفاجیز سیل مدافعتی نظام کےبڑے پیٹوخلیے ہیں۔ یہ جراثیم اور نقصان رساں خلیوں کو کھا جاتے ہیں۔ 

یہ بھی ڈینڈریٹک خلیوں کے طرح جسم کے مدافعتی خلیوں کو نقصاندہ خلیوں کی شناخت اور تباہی کے لیے اینٹی جن فراہم کرتے ہیں ۔ریگولیٹوری ٹی سیل خلیے چیک کرنے اور توازن رکھنے کا کام کرتے ہیں اور یہ بات یقینی بناتے ہیں کہ تمام خلیے اپنی ضرورت سے زیادہ فعال نہ ہوں۔ ایک بیمار مدافعتی نظام در اصل ضرورت سے زیادہ فعال مدافعتی نظام ہوتا ہے۔ جسے آٹو امیون سسٹم کی بیماری کہاجاتا ہے۔

مدافعتی نظام کے مالیکیول

اینٹی باڈیز اصل میں پروٹین ہیں جو نقصان رساں بیرونی حملہ آوروں سے چپک جاتی ہیں اور اینٹی جن کہلاتی ہیں جو جراثیم، وائرس اور رسولیوں کے خلیے ہوتے ہیں۔ یہ نقصان دہ خلیوں پر نشان لگاتے ہیں،تاکہ ان کو تباہ کردیا جائے ۔جو فعل مدافعتی نظام کے دوسرے خلیے انجام دیتے ہیں۔’’سائٹو کائنس ‘‘پیغام رساں مالیکیول ہیں جو مدافعتی خلیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ،تاکہ حملہ آور سیل۔ انفیکشن اور رسولی کے خلیے کے خلاف مناسب،بروقت اورباربط مدافعتی ردعمل کیاجاسکے۔

مدافعتی نظام کے ٹشوز اور جسمانی عضو

اپینڈکس ایک پتلی نلکی ہے جو پیٹ میں دائیں جانب نیچے کی طرف ہوتی ہے۔ مدافعتی نظام میں اس کا درست فعل ابھی تک نامعلوم ہے،کیوں کہ اس کے بغیر بھی لوگ زندہ رہتے ہیں۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ مدافعتی نظام میں یہ نظام ہاضمہ میں مددگار جراثیم کا اسٹور ہے۔ ہڈیوں کا گودا۔ یہ ایک ملائم اسپونج جیسا مادّہ ہے جو ہڈیوں کے اندر ہوتا ہے۔ جو مدافعتی نظام کا انتہائی اہم حصہ ہے اس میں غیر پختہ سیل ہوتے ہیں جو یا توتقسیم ہوکر اسٹیم سیل((stem cell بناتے ہیں (جو ایسے سیل ہوتے ہیں جو ضرورت کے مطابق کسی بھی قسم کے سیل میں تبدیل ہوجاتے ہیں) یا پختہ ہوکر خون کے لال رنگ کے سیل بن جاتے ہیں۔ 

جوخون میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ترسیل کرتے ہیں یا پھر خون کے سفید سیل میں بدل جاتے ہیں جن میں بی اور ٹی سیل شامل ہوتے ہیں۔ یا پھر پلیٹ لیٹ بنتے ہیں جو خون کا لوتھڑا بناکر اس کو بہنے سے روکتے ہیں۔ لمف نوڈ(Lymph nodes) یہ چھوٹی چھوٹی گلٹیاں جو جسم میںتمام جگہوں پر ہوتی ہیں یہ وائرسوں، جراثیم اور کینسر کے خلیوں کو چھان کر علیحدہ کرتی ہیں ۔ بعد میں جن کو خون کے مخصوص سفید سیل تباہ کردیتے ہیں۔لمف نوڈ اس جگہ پر ہوتی ہیں۔ جہاں ٹی سیل نقصان دہ حملہ آور سیل کو جسم کے اندر تباہ کرنے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔

انسانی کھال جسم کا سب سے بڑا وہ عضو ہے جو جسم کی حفاظتی ڈھال ہے اور جسم کو بیمارکرنے والی پیتھو جن اور ٹاکسن سے بچاتی ہے،جس کے اپنے مدافعتی سیل بھی ہوتے ہیں اور لمف کی چھلنیاں بھی ہوتی ہیں۔تلی ایک ایسا عضو ہے جو میدہ کے بائیں طرف ہوتا ہے اس میں خون چھنتا ہے اورخون کے سفید سیل اور پلیٹ لیٹ اسٹور ہوتے ہیں۔ اسی میں سب سے اہم مدافعتی سیل (بی سیل) کی ضربوں کے حساب سے تعداد بڑھتی ہے، تاکہ جسم کے کسی شگاف سے حملہ آور بیرونی سیل سے جنگ کرسکیں۔

تھائیمس گلینڈ سینہ کے اوپری حصہ میں بائیں طرف سینہ کی ہڈی کے نیچے ہوتا ہے۔ یہ بھی اہم مدافعتی سیل( ٹی سیل) کے پختہ ہونے کی جگہ ہے جو انفیکشن اور کینسر سیل سے جنگ کرسکیں۔ جسم کاطاقت ور مدافعتی نظام ہم کو کینسر سے محفوط ر کھ سکتا ہے اور جسم میں بن نے والی رسولیوں کو ختم کرسکتا ہے۔ امیون تھیراپی علاج کی ایک ایسی قسم ہے جو مدافعتی نظام کی طاقت کو بیدار کرتی ہے ۔اپنے اس عمل سے امیون تھیراپی جسم کے مدافعتی نظام کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کینسر کی تمام اقسام کو نشانہ بناکر انسان کی صحت کو بحال کردے۔ اور بہت سی زندگیوںکو بچاسکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین