• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی کامیاب سہولت کاری کے نتیجے میں افغان امن کیلئے امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتے کی روشنی میں دوحا میں جاری بین الافغان مذاکرات کے دوران افغان قومی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورہ پاکستان اس بات کی علامت ہے کہ برسوں کی خونریزی کے بعد برادر ہمسایہ ملک افغانستان میں امن کی راہ ہموار ہو رہی ہے جس سے پاک افغان تعلقات میں تعاون اور بھائی چارے کے نئے باب کا آغاز ہو گا اور علاقے میں استحکام، ترقی اور پاکستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی بھی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے ملاقاتوں میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے افغان قیادت کی طرف سے پاکستان کے بارے میں تلخ نوائی کمزور اور اس کے مثبت کردار کا اعتراف دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی سمت کا پتا دے رہا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جنہیں افغانستان کے موجودہ پُرآشوب دور میں قومی مفاہمت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، صدر اشرف غنی کے بعد ملک کی سب سے بااثر شخصیت ہیں۔ ماضی میں وہ پاکستان کے سب سے بڑے ناقد رہے ہیں لیکن اب ان کا لہجہ تبدیل ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کی تقریب میں اُنہوں نے کھل کر افغان امن میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا اور کہا کہ امریکہ طالبان معاہدہ اور اب دوحہ مذاکرات پاکستان کا بہت اہم کارنامہ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں ماضی کی سازشی تھیوریوں سے آگے بڑھنا اور گزرے ہوئے واقعات سے سبق سیکھنا ہو گا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنی سرزمین کسی دہشت گرد گروپ کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے ان سے ملاقات میں درست کہا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف سیاسی حل ہے، افغان قیادت مثبت انداز اپنائے اور نتیجہ خیز وسیع البنیاد اور جامع سیاسی سمجھوتے کے تاریخی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ افغان عوام اپنے مستقبل کیلئے جو بھی فیصلہ کریں گے، پاکستان اس کی حمایت کریگا۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنی تقریر میں معزز مہمان سے کہا کہ ہمیں باہمی کشیدگی کے نقصانات اور تعلقات بہتر بنانے کے مواقع ضائع کرنے سے سبق سیکھنا ہوگا۔ اگر ہم نے کشیدگی پر قابو پایا ہوتا، مفاہمت کر فروغ دیا ہوتا، علاقائی روابط، تجارت، راہداری، اقتصادی لین دین اور عوامی رابطے بڑھائے ہوتے تو باہمی تعلقات کے بےشمار ثمرات سے بہرہ مند ہوتے۔ تینوں رہنمائوں کی یہ مثبت سوچ یقیناً دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کی جانب سے اس بیانیے پر صدق دل سے عمل کیا جائے اور جو اندرونی یا بیرونی قوتیں دونوں برادر اسلامی ملکوں کو قریب نہیں آنے دینا چاہتیں انہیں بےجا مداخلت نہ کرنے دی جائے۔ اس وقت ایک طرف دوحہ مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں ہیں تو دوسری طرف افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتیں بھی جاری ہیں۔ طالبان نے ان میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن جنگ بندی بھی نہیں کی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے جنگ بندی کی جائے۔ افغان امن کیلئے تشدد آمیز سرگرمیوں میں کمی بین الافغان سمجھوتے کو حتمی شکل دینے میں مدد دے گی۔ فریقین کو اس حوالے سے جلد عملی اقدامات کرنا چاہئیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ بدلتے ہوئے حالات میں افغان قیادت پاکستان کی کوششوں میں اس کا ساتھ دے کر نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے امن کو تقویت پہنچائے گی۔

تازہ ترین