• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن، آصف ڈار
 اس بات پر تمام دنیا کے سائنسدانوں کا اتفاق ہے کہ جب تک کورونا سے بچائو کے لئے کوئی موثر ویکسین مارکیٹ میں نہیں آجاتی کم از کم اس وقت تک دنیا کے سب لوگوں کو اس وبا کے سنگ ہی جینا ہوگا! یہ ویکسین کب آئے گی کب تک ہر شخص کی دسترس میں ہوگی اور اس سے کورونا وبا سے کس حد تک بچا جاسکے گا؟ اس بارے میں ابھی تک کوئی سائنسدان حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ رہا، البتہ یہ بات طے ہے کہ اس کے ایجاد ہونے میں 6ماہ سے دو سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے اور سب لوگوں تک اسے پہنچانے میں مزید وقت بھی درکار ہوگا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس ویکسین کےلگنے کے بعد سب کو کورونا سے استثنیٰ حاصل ہو جائے گا بلکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کافی دیر تک اپنی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہ سکتا ہے۔ چنانچہ اب دنیا کے اکثر ممالک نے اس وبا کے ساتھ چلنے اور ایس اوپیز کے ذریعے اس سے بچتے بچاتے اپنی معاشی سرگرمیوں کو کھول دیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کو کوئی بھی معمولی وبا نہ سمجھے بلکہ سب حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگرچہ بعض ممالک نے جن میں امریکہ اوربھارت سرفہرست ہیں، اس وبا کو ابتدائی طور پر ہی ٹھیک طو پر ہینڈل نہیں کیا جس کی وجہ سے ان سمیت کئی ممالک میں بھاری جانی نقصان ہوا تاہم چین (جہاں سے یہ وبا نکلی تھی) سمیت بہت سے یورپی افریقی اور ایشیائی ممالک میں اس سے اتنی اموات نہیں ہوئیں جتنا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ اس کی وجہ جہاں موسمی حالات اورنوجوان آبادی کازیادہ ہونا تھا اس کے ساتھ وہاں پر لوگوں کو وبا سے بہتر طور پر آگاہی کا ملنا بھی اس کا سبب تھا۔ ابتدائی دنوں میں چونکہ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ لوگ اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔ اس لئے بعض ممالک میں یہ وبا تیزی سے پھیلی اور اس نے بہت زیادہ جانی نقصان کیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس وبا کے نتیجے میں پیداہونے والی تمام بیماریوں سے طبی ماہرین آگاہ ہیں اور جس کو جو بیماری لاحق ہوتی ہے اس کا بخوبی علاج ہو رہا ہے۔ اس لئے اب دنیا میں وہ افراتفری نہیں رہی جو پہلے تھی۔ پھر لوگ جہاں بھی جاتے ہیں ۔ ایس او پیز کا خیال رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں اگرچہ سکولز اور یونیورسٹیاں کھلنے کے بعد اس وبا نے ایک مرتبہ پھر بڑھنا شروع کردیا ہے تاہم حکومت کی جانب سے لوکل لاک ڈائون کے ذریعے اور مختلف کاروباروں کو مخصوص وقت پر بند کرنے کے اقدامات کئے گئے ہیں جن سے امید ہے کہ یہ وبا تیزی کے ساتھ دوبارہ نہیں پھیلے گی۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ملک کی معیشت بھی چلتی رہے۔ اس حکومت نے کسی دوسرے ملک سے آنے والوں کو یہ نہیں کہا کہ وہ کورونا کا ٹیسٹ کراکے آئیں بلکہ بعض ممالک سے آنے والوں پر قرنطینہ کی پابندی ضرور عائد کی ہے۔ جبکہ وطن عزیز کی بات کریں تو وہاں کے کرتا دھرتائوں نے اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد پر کورونا منفی سرٹیفکیٹ کا بم گرا دیا ہے۔ یہ ایک ایسے خود کش حملے کی طرح ہی ہے جو حکومت کے با اختیار لوگوں نے خود اپنی حکومت پر کیا ہے۔ اس طرح کا ایک خود کش حملہ چند ماہ قبل پاکستان کے وزیر شہری ہوا بازی اپنے ہی محکمے پر کرچکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کی دنیا بھر میں سبکی ہوئی بلکہ یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازیں ہی بند کردیں۔ کئی ممالک کی ائر لائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹوں کی ڈگریوں پر سوالات اٹھائے گئے۔ اس مسئلہ کو ابھی حل نہیں کیا گیا تھا کہ خاص طور پر برٹش پاکستانیوں پر کورونا سرٹیفکیٹ کا حملہ کردیا گیا ہے۔ یہ قانون4اکتوبر سے نافذ ہو رہا ہے اور اس دن کے بعدسے جن ہزاروں لوگوں نے پاکستان کے لئے سیٹیں بک کرا رکھی تھیں وہ یا تو منسوخ کردی ہیں (بعض کے پیسے بھی ضائع ہوگئے ہیں) یا پھر 150سے300 پونڈ فی کس کے حساب سے کورونا ٹیسٹ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں! برطانیہ ایسا ملک نہیں کہ جہاں یہ وبا زوروں پرہے یا اس سے بہت زیادہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں تو پھر اس پر حکومت پاکستان کی جانب سے یہ خاص ’’مہربانی‘‘ کیوں کی گئی ؟ کیا اس کا مقصد15لاکھ کے قریب برٹش پاکستانیوں کی وطن عزیز میں آنے جانے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے؟ اگر نہیں تو کیا حکومت پاکستان کو اس کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔ یقیناً نہیں ہوگا بلکہ اس سے نقصان یہ ہوگا یہ جو برٹش پاکستانی اپنے وطن میں جاکر زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں۔ اس سے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔ کورونا سرٹیفکیٹ کا فائدہ صرف برطانیہ کی فارمیسیز کو ہوگا جو سرٹیفیکٹ کے بدلے بھاری رقم لیں گی۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ پاکستانی حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا مخالف بنانے کے بجائے ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔
تازہ ترین