گلگت بلتستان کے نگراں وزیراعلیٰ میر افضل نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ الیکشن میں فوج سے مدد نہیں لی جائیگی، ثابت کریں گے کہ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے ذریعے الیکشن کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، فوج کے بغیر الیکشن کرا کے ملک میں ایک مثال قائم کریں گے، البتہ انتہائی حساس حلقے میں فوج کی تعیناتی حالات کے مطابق عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز نے کہا کہ قانونی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کوئی حکومتی عہدیدار گلگت بلتستان نہیں آ سکتا اور نہ اسے انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے۔ الیکشن کمیشن نے اسمبلی الیکشن تک وزیراعظم سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کے دوروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ آزادی کے بعد سے گلگت بلتستان اور ان سے ملحقہ بہت سے علاقے فانا یعنی فیڈرل ایڈمنسٹریٹو ناردرن ایریاز کہلاتے تھے، دفاعی اعتبار سے یہ علاقے انتہائی اہم ہیں اور یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ 2009میں اس علاقے کو نیم صوبائی خودمختاری دے کر پہلی دفعہ انتخابات کرائے گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سید مہدی علی شاہ پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ بعد ازاں ن لیگ کے حافظ حفیظ الرحمٰن وزیراعلیٰ بنے۔ اب گلگت بلتستان میں 15نومبر کو تیسرے انتخابات ہو رہے ہیں۔ علاقے میں ہونے والے سیاسی اقدامات انتہائی اہم بھی ہیں اور قدرے حساس نوعیت کے بھی۔ چنانچہ یہ امر یقینی بنانا لازمی ہے کہ الیکشن کی شفافیت پر کوئی حرف نہ آنے پائے۔ اس ضمن میں خطے کی نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کے عزائم قابلِ ستائش بھی ہیں اور جمہوری طرز عمل پر یقین کامل کے عکاس بھی۔ صرف انتہائی حساس حلقوں میں فوج سے مدد لینے اور باقی امور پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے سپرد کرنے کا عندیہ، اداروں پر اعتماد کا مظہر اور خطے کے لوگوں کا جمہوری شعور آشکار کرتا ہے۔ امید ہے کہ الیکشن کا یہ مرحلہ بطریق احسن طے پائے گا اور واقعی ایک مثال بنے گا۔