• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مفاہمت کے سربراہ عبداللّٰہ عبداللّٰہ کے حالیہ دورۂ پاکستان کو وہ حلقے سفارت کاری کا غیرمعمولی واقعہ قرار دے رہے ہیں، جو اِس خطے کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ 

اِس کی وجہ یہ ہے کہ عبداللّٰہ عبداللّٰہ پاکستان کے سخت نقاد رہے ہیں اور وہ مسلسل یہ الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے بعض انتہا پسند گروہوں کی پاکستان سرپرستی کرتا ہے۔ عبداللّٰہ عبداللّٰہ کا بیانیہ وہی تھا جو کہ بھارت کا ہے۔ 

اُنہوں نے اپنے دورۂ پاکستان میں نہ صرف یہ بیانیہ اختیار کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ دونوں ملکوں کو اب وہ سوچ بدلنی چاہئے، جس کے تحت وہ ماضی میں ایک دوسرے سے معاملات طے کرتے رہے ہیں۔

29فروری 2020کو دوحہ (قطر) میں امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کے بعد انحراف کرنا پڑا لیکن یہ بات اہم ہے کہ اُنہوں نے دونوں ملکوں کو اپنی روایتی سوچ بدلنے پر زور دیا۔

سبب کچھ بھی ہو، پاکستان کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے، جسے بھارت سمیت کچھ قوتیں روکنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ عبداللّٰہ عبداللّٰہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔

افغانستان میں قیامِ امن جس طرح وہاں کے لوگوں کے لئے اہم ہے، اِسی طرح پاکستان کے لئے بھی بہت اہم ہے کیونکہ افغانستان میں خونریزی اور بدامنی کا خمیازہ افغانستان کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ بھگتا ہے۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں شروع کئے گئے امریکی منصوبے میں جس طرح اس خطے کے ممالک کے لیے کئی جال یا پھندے(Traps) تھے، بالکل اِسی طرح افغانستان میں قیامِ امن کے منصوبے میں بھی کئی جال ہیں، جن میں پھنسنے کے بجائے بہت تدبر اور بصیرت افروز خارجہ پالیسی کے ذریعہ نکلنا ہوگا۔

 اِن پھندوں کے باوجود افغانستان میں قیامِ امن کے لئے گہرے پانیوں میں اُترنا ہوگا۔ سب سے بڑا جال (Trap) افغانستان میں عدم استحکام ہے۔

پاک افغان تعلقات کی اپنی تاریخ ہے اور کچھ حقائق ایسے ہیں، جنہیں آج بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات دوستانہ سے زیادہ مخاصمانہ رہے۔ ہمارے مغرب میں پڑوسی افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے باوجود ہماری ہر کوشش کامیاب نہ رہی اور اِس صورتحال کو ہمارے مشرق میں مخاصمانہ رویہ رکھنے والے دوسرے پڑوسی بھارت نے استعمال کیا۔ 

اس وقت بھارت اپنی سرزمین کے بجائے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ افغانستان میں جو بھی حکمران آئے، وہ مختلف اسباب کے تحت پاکستان کے ساتھ دوستی کی طرف نہ بڑھے۔ 

ایک سبب تو یہ تھا کہ ہندوستان کونو آبادیات بنانے کے بعد برطانوی استعمار نے افغانستان کو ’’بفر اسٹیٹ‘‘ بنا کر رکھا تاکہ مغرب سے کوئی قوت ہندوستان میں داخل ہو کر برطانوی راج کے لئے چیلنج نہ بن سکے۔ 

اس مقصد کے لئے افغانستان اور پاکستان کے موجودہ شمالی علاقہ جات کو قبائلیت کے دور میں رکھا گیا اور وہاں عدم استحکام کو سیکورٹی ضرورت بنا دیا گیا۔ اسی بفرزون میں عالمی طاقتوں کا بڑا ٹکراؤ 1970کے عشرے کے آخر میں شروع ہوا اور اب مسلسل چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے وہاں آج بھی خون کا کھیل جاری ہے۔ 

افغانستان اور اس سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں بدامنی نے پاکستان میں نہ صرف معاشی ترقی کو روکا بلکہ سیاسی عدم استحکام بھی پیدا کیا۔ پاکستان میں فوجی حکومتوں اور دہشت گردی کا اہم سبب افغانستان میں بدامنی اور عالمی طاقتوں کا تصادم ہے۔

اس تناظر میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے لئے کس قدر ضروری ہے۔ یہ امن اس لئےاور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ دنیا کی ہیئت تبدیل کردینے والے چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے اہم حصے ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ (سی پیک) کو پاکستان سے گزرنا ہے۔ 

سی پیک نہ صرف پاکستان میں معاشی ترقی کا اہم موقع ہے بلکہ اس سے پاکستان کے لیے نئی عالمی صف بندی میں اپنا مقام ازسرنو متعین کرنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ افغانستان میں بدامنی رہے، اس سے وہ دو مقاصد حاصل کرتا ہے ۔

اول تو وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے لئے استعمال کرتا ہے اور دوسرا وہ امریکی اتحادی کے طور پر سی پیک منصوبے کو سبو تاژ کرنا چاہتا ہے۔ 

ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے امریکی منصوبے کے کیا مقاصد ہیں اور افغان حکمرانوں کی پاکستان کے بار ےمیں روایتی سوچ کیا ہے؟ اس کے باوجود افغانستان میں جن اسباب کی بنا پُرامن کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

ہمیں ان کا اس لیے ساتھ دینا چاہئے کہ اگر افغانستان میں کچھ عرصے کے لئے بھی امن قائم ہو جائے تو پاکستان کو بہت سے مواقع میسر آئیں گے اور پاکستان اس پوزیشن میں آسکتا ہے کہ وہ افغانستان میں مستقل اور حقیقی امن کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے۔ 

افغانستان کے ساتھ اس تاریخی تناظر اور اپنے اہداف کی روشنی میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں اپنی روایتی سوچ اور پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔ افغانستان میں امن ہمارے لئے بہت بہت زیادہ ضروری ہے۔

تازہ ترین