پنجاب کے دارلحکومت لاہور سے 70-60کلو میٹر دُور تین تحصیلوں اور چالیس لاکھ آبادی پر مشتمل قصور پوری دنیا میں اُس وقت توجّہ کا مرکز بنا، جب 2014 ء میں یہاں 300سے زاید بچّوں کی قابلِ اعتراض ویڈیوز کا انکشاف ہوا۔ بعدازاں 2017ء اور 2018ء میں یہاں پے در پے 12بچّوں کے جنسی تشدّد کے بعد قتل کے واقعات نے مُلک کو ہلا کر رکھ دیا۔گرفتاریاں ہوئیں، مقدمے چلے، لعنت ملامت، عوامی احتجاج ہوا، مگر وہاں آج بھی حالات میں بہتری نہیں آئی۔
یہاں خفیہ طور پر کئی ایسے نیٹ ورک آج بھی سرگرم ہیں، جو کم سِن بچّوں، بچیّوں کا دامن داغ دار کر رہے ہیں۔ قصور میں نمایندۂ جنگ، محمّد سلیم الرحمٰن نے، جو کئی دہائیوں سے اِس مکروہ دھندے کی رپورٹنگ کر رہے ہیں،تازہ ترین صُورتِ حال کے حوالے سے بعض فکر انگیز انکشاف کیے۔اُن کے مطابق’’اِس میں شک نہیں کہ درجنوں این جی اوز نے قصور کو دنیا بھر میں بدنام کر کے مال کمایا، لیکن قصور کو اس نہج تک پہنچانے میں ہمارا اپنا ہاتھ بھی ہے۔
قصور کے عام شہریوں کو اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ چار پانچ سال پہلے’’ حسین خان والا‘‘ میں بچّوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو اُچھالا گیا، تو دیکھتے ہی دیکھتے اس علاقے کا معاشرتی نظام بکھر گیا۔ قصور سے تعلق رکھنے والی کئی شادی شدہ لڑکیوں کو طعنہ زنی کی وجہ سے طلاق لے کر اپنے میکے آنا پڑا۔’’ حسین والا‘‘ کے کئی خاندان وہاں سے نقلِ مکانی کر گئے۔ ان واقعات پر سیاست بھی کی گئی۔ ابھی ان قابلِ اعتراض ویڈیوز کی بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ ایمان، فاطمہ، کائنات، عائشہ، زینب اور لائبہ وغیرہ12 بچّے، بچیوں کو جنسی تشدّد کے بعد قتل کر دیا گیا۔ان واقعات میں ملوّث ہونے کے شبہے میں چار ہزار سے زائد افراد کو پکڑا گیا، لیکن تفتیشی افسران نے اُنھیں بھاری رشوت لے کر چھوڑ دیا، بلکہ لواحقین کو خاموش کرنے کے لیے ایک نوجوان کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔
پھر ایک شخص عمران کو، جس کا ڈی این اے کچھ بچّوں سے میچ کر گیا تھا، پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔‘‘ محمّد سلیم الرحمٰن نے بتایا’’ صحافتی ذمّے داریوں کے دَوران جب میں نے اپنے ذرایع کے ذریعے عمران سے معلومات لینا چاہیں، تو اُس کی طرف سے ایک ہی پیغام ملا کہ’’سلیم صاحب کو کہیں، مجھے تو پھانسی ہو جائے گی، لیکن اُن کو بھی تو پکڑیں، جن کے ہاتھ میں نے زینب کو دیا تھا۔‘‘ ایک اور حقیقت جس پر آج بھی پردہ پڑا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ اُس وقت عمران کے علاوہ تین اور مجرموں کے ڈی این اے بھی میچ ہوئے تھے، لیکن وہ گرفتار نہیں ہوئے۔ اس کی تصدیق اُس وقت فرانزک لیب کے حکّام نے بھی کی تھی۔‘‘محمّد سلیم الرحمٰن کہتے ہیں’’ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ بچّوں اور بچیوں سے زیادتی کے حوالے سے قصور آج بھی منظرِ عام پر نہ آنے والی خفیہ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔وہاں گزشتہ دس برس کے دَوران ایسے واقعات کی شرح 6فی صد سے بڑھ کر 16فی صد سے زائد ہو گئی ہے، جب کہ نظام کی خرابیوں کی وجہ سے 97فی صد سے زائد مجرم سزا سے بچ نکلے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ضلع قصور کی آبادی اِس وقت 40لاکھ ہے، یہاں پولیس کی تعداد 1800سے 2 ہزار ہے، جن میں صرف 900اہل کار 20 تھانوں اور چوکیوں میں تعیّنات ہیں، باقی دوسری ڈیوٹیز پر ہیں۔ یہ ایک دِل خراش حقیقت ہے کہ پولیس افسران، انسپکٹرز اور دیگر اہل کاروں کی زیادہ تعداد سیاسی اثر و رسوخ کے بل بوتے پر یہاں تعیّنات ہوتی ہے اور اُن میں سے بعض کا جرائم پیشہ افراد سے بھی تعلق ہے۔ وہ بعض اوقات ڈی پی او یا ایس پی کی بات بھی سُننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔‘‘اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ قصور اور اس کی تحصیلوں میں مختلف شاہ رائوں پر، جن میں ملتان روڈ سرِفہرست ہے، متعدّد ایسے مراکز اور مدارس واقع ہیں، جہاں غریب اور نادار افراد نے اپنی بچیوں اور بچّوں کو تعلیم کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔
وہ بچّوں کو بھیک مانگنے کے لیے دُور دراز علاقوں میں بھیجتے ہیں اور بچیاں بڑے لوگوں کی ہوس کا ایندھن بن جاتی ہیں۔ جو غریب بچّے چُونیاں میں جنسی تشدّد کے بعد ہلاک ہوئے، وہ بھی اپنے گھر روزانہ 500سے ایک ہزار روپے دیتے تھے۔ ان مدارس سے بعض ایسی کہانیاں وابستہ ہیں، جو ان مدارس کے بااثر منتظمین، پولیس اور علاقے کی بااثر سیاسی شخصیات کی وجہ سے کبھی منظرِ عام پر نہ آ سکیں۔ اب تک نہ جانے کتنی لڑکیاں اور لڑکے والدین کی غربت اور مجبوری کے ہاتھوں تاریک راہوں میں مارے جا چُکے ہیں۔ اِس ضمن میں قصور میں ایک مکمل کلین اپ آپریشن کی ضرورت ہے۔ ‘‘