• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرض اور قرض اچانک حملہ آور ہوتے ہیں لیکن جاتے جاتے وقت لیتے ہیں۔ اللہ پاک کا کرم ہے، اُس کی کس کس نعمت کا شکر ادا کروں کہ شاید شکر ادا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زندگی بھر مالی قرض سے خاصی حد تک محفوظ رکھا لیکن جہاں تک دوستوں، بہی خواہوں کی محبتوں کے قرض کا تعلق ہے وہ ادا نہیں ہو سکتا۔ محبتوں کے قرض سے کہیں زیادہ اہم اور وزنی قرض احسانات کا ہوتا ہے کیونکہ میرا تجربہ ہے جو شخص آپ پر احسان کرتا ہے آپ اُس کا قرض کسی صورت بھی نہیں چکا سکتے چاہے آپ جواباً اُس پر درجنوں احسانات کریں۔ احسان صرف وہی شخص کرتا ہے جو بھلائی، نیکی، مدد، خدمت میں یقین رکھتا ہو اور اپنی ذات سے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہو۔ میں نے زندگی کے سفر میں کئی ایسے لوگ دیکھے جو کسی مصیبت زدہ کو مشکل سے نکال کر احسان کا ثواب کما سکتے تھے لیکن وہ اپنے مفادات، جمع، تفریق اور سود و زیاں کی پیچیدگیوں میں اُلجھ کر کنارہ کش ہو گئے۔ مطلب یہ کہ جو انسان ہمیشہ اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہو اور اپنے مفادات کو ہر شے پر ترجیح دیتا ہو، وہ کسی پر احسان کرنے کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ احسان کرنے کی صلاحیت اُنہیں ملتی ہے جن کے ظرف اور قلب وسیع ہوتے ہیں، جن میں ایثار کا جذبہ ہوتا ہے اور جو دوسرے انسانوں کو نہ صرف اہمیت دیتے ہیں بلکہ اُن کی خدمت کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔ میں نے زندگی میں بہت کم ایسے لوگ دیکھے جو دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر فوقیت دیتے تھے لیکن زندگی کے طویل سفر میں اپنی ذات کی نفی کرنے والے فقط چند حضرات ملے جنہیں میں صحیح معنوں میں اللہ کا دوست سمجھتا ہوں کیونکہ اپنی ذات کی نفی اللہ سے دوستی کئے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ یہ بلند رتبہ صرف اُنہیں ملتا ہے جو اِس کے مستحق ہوتے ہیں۔

بابِ علم حضرت علیؓ کا وہ قول یاد کرو کہ جس شخص پر احسان کرو اُس کے شر سے بچو۔ اسی طرح کی ایک بات علامہ اقبال کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ اُن کے ہمعصر صحافی سگریٹ پان کی دکان پر کھڑے علامہ کی فقیر منش شخصیت کی تنقیص کر رہے تھے، پاس کھڑے ایک صاحب یہ گفتگو سن رہے تھے، وہ صاحب علامہ کے پاس گئے اور اُن کو بتایا۔ علامہ نے بات سن کر برجستہ کہا ’’مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے اُن پر کوئی احسان کیا ہو‘‘۔ اِس سے یہ راز کھلا کہ احسان کرنے والے کے علاوہ جس پر احسان کیا جا رہا ہے یہ اُس کے بھی ظرف کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر ظرف وسیع ہوگا تو وہ زندگی بھر احسان کے قرض کا بوجھ اٹھائے رکھے گا۔ اگر تربیت میں خامی تھی، ظرف کا پیمانہ چھوٹا تھا، نفس حاوی اور خودغرضی مطمح نظر اور مقصد حیات تھی تو ایسا انسان کبھی بھی زیر بار اور احسان مند نہیں ہوگا۔ وہ وقتی طور پر اگر احسان مندی کا اظہار کر بھی دے تو دل سے تسلیم نہیں کرے گا اور اگر کبھی اِس کا مفاد آپ کے مفاد سے ٹکرا جائے تو وہ نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آئے گا۔ معاف کیجئے مشاہدات کے فریم ورک میں جب تک تجربات کی تصویر نہ سجائی جائے، وہ خالی چوکھٹا ہی رہتا ہے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو مجھے پاکستان کے ایک نامور ادیب یاد آ رہے ہیں۔ ایک بار وہ ایک گھمبیر مشکل میں پھنس گئے جس کے نتائج اُن کے لئے تباہ کن بھی ہو سکتے تھے۔ وہ مجھے ملنے آئے، پھر کئی بار آئے حتیٰ کہ ہم میں دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا۔ پھر اُنہوں نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ میں اُس وقت اِس پوزیشن میں تھا کہ اُن کی مدد کر سکتا تھا۔ جوشِ محبت میں مَیں نے ساری حدود پھلانگ دیں حتیٰ کہ اپنی ذاتی ضمانت کے زور پر اُنہیں ایک گھمبیر الزام کی کھائی سے نکالا۔ جب میں نے اُنہیں یہ خوش خبری سنائی کہ تمام بادل چھٹ گئے ہیں تو اُن کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اُنہوں نے تین حضرات کی مجلس میں جذباتی ہو کر اعلان کیا کہ ڈاکٹر صاحب! میں تو کیا، میری آئندہ نسلیں بھی آپ کا یہ احسان فراموش نہ کر سکیں گی۔ حالات نے پانسہ پلٹا۔ اتفاق سے ہم دونوں ایک پوزیشن کے لئے امیدوار بن گئے یا حالات نے بنا دیا۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ خود غرضی، نفس پرستی، لالچ، ہر قیمت پر اپنے مفادات کا حصول انسانی فطرت ہے یا انسانی جبلتیں ہیں۔ دراصل یہ انسانی نہیں بلکہ حیوانی جبلتیں ہیں۔ اگر انسان ان جبلّتوں پر قابو نہ پا سکے، انہیں مسخر نہ کر سکے اور انہی کا اسیر بنا رہے تو وہ حیوانی سطح پر زندگی گزار دیتا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا ہے کہ انسان خودغرضی، لالچ، اپنی ذات اور مفادات سے عشق، حسد اور بغض جیسی جبلّتوں اور سفلی جذبات سے نجات حاصل کرے اور اپنے اندر بےلوث محبت، ایثار، قربانی اور خدمت کا جذبہ پیدا کرے کیونکہ یہ جذبے اور خصلتیں روح کی غذا ہیں جن سے روح کی روشنی میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ خودغرضی، لالچ، حرص اور ہوس، نفس کی خوراک ہیں جس سے نفس موٹا اور جسم ’’کھوٹا‘‘ ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جسم کا ساتھ تو محض قبر تک ہے جبکہ روح کو ابدیت حاصل ہے۔ ہماری ٹریجڈی یہ ہے کہ ہم کھوٹی شے کی نشو و نما میں زندگی گزار دیتے ہیں اور اصلی شے، ابدی شے یعنی روح کو اگنور کرتے رہتے ہیں۔

دوستو! جو شخص اللہ کی مخلوق کے احسانات نہیں مانتا اور بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا، وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔ وہ ناشکروں میں شمار ہوتا ہے۔ شکر گزار ہونا ایک رویے، سوچ اور تربیت کا حصہ ہے۔ بےلوث ہونا نہ ہی صرف زندگی کی عظیم نعمت ہے بلکہ زندگی کا عظیم اثاثہ بھی ہے۔ اس لئے ہو سکے تو بھلائی کرتے رہو، بدلے اور اجر کی توقع سے بالاتر رہو، کسی قسم کی بھی خدمت کرتے ہوئے اجر کی توقع بندے سے نہیں بلکہ اپنے خالق سے رکھو، جو تم سے نیکی کرے یا تم پر احسان کرے، اُس کے شکر گزار رہو۔ سب سے بڑھ کر اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہو جس نے تمہیں اِس قابل بنایا اور توفیق دی۔ اِس طرح تم شکر گزار بندے بن جائو گے اور سچ یہ ہے کہ شکر گزار بندے اللہ پاک کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ شکر گزاری بندگی ہے اور ناشکری بےبندگی!!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین