• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں جماعت اسلامی کے علاوہ تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے عمران خان حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے نیا اتحاد بنالیا۔ اس گیارہ جماعتی اتحاد کی کامیابی کے لئے مسلم لیگ ن کے قائد اور میاں نواز شریف بہت متحرک ہیں اور ان کی تقریر کو وزیر اعظم عمران خان سمیت تمام وزراء اور حلقے بھارتی ایجنڈا قرار دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے بغاوت کا نام بھی دے رہے ہیں اور بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں پیمرا نے ان کی تقریر کو ٹیلی کاسٹ کرنے یا پرنٹ کرنے پر پابندی لگا دی ہے اور کہا کہ قانون کے مطابق کسی مجرم کی تقریر ٹیلی کاسٹ نہیں ہوسکتی۔ 

پیمرا کی اس ہدایت پر کیسے اور کتنا عملدرآمد ہوتا ہے بہر حال اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں ٹھن گئی ہے دیکھیں اپوزیشن کی حکومت کے خلاف تحریک کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اور حکومت کے اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنے فیصلے کا اعادہ کیا ہے اپوزیشن کچھ بھی کرے میں این آر او نہیں دونگا میں حکومت چھوڑ دونگا مگر قومی دولت لوٹنے والوں کو کسی قسم کی چھوٹ نہیںملے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین جب حکومت سے کسی قسم کا ریلیف لینے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے بھی سخت رویہ اختیار کیا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے جب تک فوج کسی تحریک کے نتیجے میں کوئی تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں ہوتی کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی۔ 

محض عوام کے بل بوتے پر کوئی اقتدار میں نہیں آتا۔ اس ملک میں بابائے قوم کے بعد مقبول لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ اس کی پھانسی پر لوگ سڑکوں پر نہیںآئے اور بھٹو کی پھانسی کو رکوا نہیں سکے تو اب عوام کی طاقت کے بل بوتے پر نیا سیاسی اتحاد کیسے کامیاب ہوسکتا ہے۔میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر پہلے سے زیادہ پراعتماد دکھائی دیتے ہیں سیاسی مبصرین کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں لابسٹ اور بعض اہم شخصیات نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ سی پیک اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور پاکستان کے ساتھ چین کے مضبوط تعلقات پر انتقام لینا چاہتا ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازش ہو رہی ہے پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کرانے کے لئے بھی کافی پیسہ دیا گیا ہے۔ اس وقت ملکی و بین الاقوامی حالات اور ملک کو بھنور سے نکالنے کے لئے پاک فوج عمران خان حکومت کے ساتھ ہے ۔ 

چین بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں نئے الیکشن ہوں اور کوئی پرو امریکہ اور پرو بھارت حکومت آجائے اور ان کا سی پیک کا منصوبہ یا بھارت کے ساتھ تنازعے کو نقصان پہنچے۔ بہر حال اپوزیشن جماعتوں کی تحریک سے ملک کی معیشت کو زبردست نقصان ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئے اور کوئی نیا ڈرامہ ہی نہ ہوجائے۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ حکومت اور فوج جلسوں کو تو برداشت کرے گی مگر گڑ بڑ برداشت نہیں کرے گی اور دسمبر تک کئی لیڈر جیل چلے جائیں گے جیسے کہ میاں شہباز شریف جیل چلے گئے حالانکہ وہ سخت رویئے کے حامی نہیں تھے مگر ان کی ایک نہیں چلی خود مریم صفدر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے کئی لیڈر میاں نواز شریف اور میری پالیسی کابار برداشت نہیں کرسکتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مہنگائی میں پسے ہوئے لوگ ان سیاسی جماعتوں کی کال پر کس حد تک سڑکوں پر نکلتے ہیں ابھی تو مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوچکی ہے بتایا جاتا ہے کہ کافی تعداد میں اراکین قومی اسمبلی اور اراکین پنجاب اسمبلی مسلم لیگ ن سے الگ ہو کر فارورڈ بلاک بنالیں گے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی گورننس کا جائزہ لیا جائے وہ بھی کوئی قابل تعریف نہیں۔بقول وزیر اعظم عمران خان کے ہمارے بعض ساتھی اپنے ہی گول میں بال پھینک دیتے ہیں جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اپوزیشن والوں کو عوام کا دکھ کم اور اپنے خلاف کیسوں کا غم زیادہ ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عوام مہنگائی سے اس قدر تنگ ہیں حکومت کی کوئی توجہ نہیںنہ ہی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا کوئی میکنزم ہے۔ 

تاجر جب چاہتے ہیں اشیائے خورد و نوش اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور بے چارے لوگ منہ مانگے دام دینے کے لئے مجبور ہیں۔ لاوہ ابل ہا ہے کسی وقت پھٹ بھی سکتا ہے اگر وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوںمیں کمی کرنا ہوگی اور مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لئے آہنی ہاتھ استعمال کرنا پڑے گا۔ بیورو کریسی جو حکومت کے ساتھ ذرہ بھر تعاون نہیں کر رہی اس وقت بھی نواز شریف دور کے افسران اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ 

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قرضہ سکیم شروع کی ہے مگر یہ سکیم کچھ عرصہ اپوزیشن کی تحریک سے پہلے شروع ہوتی تو اس کے بہت بہتر نتائج برآمد ہوتے مگر اس سکیم کو شفاف بنانیکی اشد ضرورت ہے اگر لوگوں کو رشوت لے کر قرضہ دیا گیا تو حکومت کا کریڈٹ ختم ہوجائے گا لوگ کہیں گے ہم نے قرضہ لینے کے لئے پیسے دیئے ہیں حکومت نے مہلک امراض کی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا ہے اور اسی طرح دیگر اشیاء کی قیمتیں روز بروز بڑھا دی جاتی ہیں عوام اس بات پر شدید ناراض ہیں وزیر اعظم عمر ان خان صاحب کو اگر کوئی یہ رپورٹ دیتا ہے کہ عوام بہت خوش ہیں تو دھوکہ ہے اس سے پہلے کہ اپوزیشن لانگ مارچ کرے چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرنا ہوگی اور اب گیس کا بحران پیدا ہونے والا ہے اس پر ابھی سے قابو پایا جائے۔ وزیر اعظم عمران نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ میاں نواز شریف کو واپس لانے کے لئے ہرقسم کے اقدامات کئے جائیں ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہونا چاہئے جنہوں نے اتنا خوف و ہراس پھیلایا کہ بس میاں صاحب چند گھنٹوں کے مہمان ہیں او میاں نواز شریف سے اپنے پرانے تعلقات کا اعادہ کیا۔ 

ان ڈاکٹروں نے بہت زیادتی کی جنہوں نے میاں صاحب کو باہر بھجوانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ دوسرے انصاف کا تقاضا ہے کہ جہانگیر ترین کو بھی ملک میں واپس لایا جائے اگر انہوں نے چینی کے سکینڈل میں 10 ارب کھائے ہیں تو ان کے اور دیگر مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے اس طرح عمران خان صاحب کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا اس کی تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی وزیر اعظم صاحب نے کشمیر اور بھارتی فوج کے مظالم کو جس طریقے سے اجاگر کیا وہ قابل تعریف ہے وزیر اعظم نے تیسری دنیا کی مظلوم عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اور کھا کہ ان کے کھربوں ڈالر جو لوٹ کر باہر بھیجے گئے وہ واپس دیئے جائیں یہ بہت مناسب مطالبہ تھا ۔

موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کا ملزم عابد ابھی تک گرفتار نہیں ہوا جو انتہائی افسوسناک ہے متاثرہ خاتون کے بیان سے جو بات سامنے آئی ہے اس سے لگتا ہے کہ پٹرول وغیرہ کے لئے لوکیشن کا ذکر ہوا وہ مقامی پولیس کے نوٹس میں تھا اور مقامی پولیس پوری طرح ملوث ہے اگر وہاں ایس ایچ اواور محرر اور دیگر ڈیوٹی پر موجود عملے سے انٹیلی جنس والے انکوائری کریں تو بات واضح ہوجائے گی ہمارے خیال میں عابد کو اسی مافیا نے چھپا رکھا ہے اور چند دن بعد یہ خبریں آسکتی ہیں کہ وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین