• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں ملکی اور عالمی سطح پر ایک بار پھر کراچی کے قریب واقع دو جزائر، بڈّو اور بنڈل کا تذکرہ ہورہا ہے۔ اور دوسری جانب وفاقی اور سندھ کی حکومت کے درمیان اس معاملے پر رسّہ کشی جاری ہے۔لیکن ان جزائر کا معاملہ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا ہے،بلکہ ایسا تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ یہ جزائردو دہائیوں میں دو مرتبہ ئیل اسٹیٹ ڈیولپرز کے حملے سے بچ چکے ہیں۔ پہلی مرتبہ ان پر 2007 اور دوسری بار2013میں حملہ کیا گیا تھا۔یہ ایک بار پھر اس وقت نظروں میں آئے جب پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نےیک طرفہ طور پر ان کا کنٹرول سندھ حکومت سے حاصل کرلیا۔اس کے بعد حکومتِ سندھ نے وفاق کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت مزاحمت کا عندیہ دیا ہے۔

ماحول کو بھی دیکھیں

یہ جزائرجہاں واقع ہیں وہاں کے ماحول کا جائزہ لینے کے حوالے سے حال ہی میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہے۔قدرتی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ،ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر کی پاکستان شاخ کی جانب سے 2008میں کیے جانے والے سروے کے مطابق یہاں مچھلیوں کی 96، پرندوں کی 54 اور سمندری ڈولفن اور کچھووں کی 3 اقسام (اسپیسیز)پائی جاتی ہیں اورتین ہزار 349 ایکڑ رقبے پر تمر کے جنگلات ہیں۔ماہرینِ ماحولیات کے مطابق بڑھتی ہوئی آلودگی کے دباؤ سے اس جگہ کاماحولیاتی نظام پہلے ہی بہت خراب ہے جو کنکریٹ کی تعمیرات کی وجہ سے شدت اختیار کرجائے گا ۔

اس علاقے کا ماحولیاتی آڈٹ ہونا چاہیے تاکہ اس کے تحفظ کے لیے حکمت عملی وضح کی جاسکے، تاہم یہ علاقہ ماحولیاتی سیاحت کا بالکل متحمل نہیں ہوسکتا۔ان جزائر کے ضمن میں وہ کنونشن آن بایولوجیکل ڈائیورسٹی کے آرٹیکل 8 (اے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان اس کا دست خط کنندہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے معاشرتی، ثقافتی مفادات کا تحفظ اور احترام کرے۔

پرانا مسئلہ،نئے خواب

ان جزائر کے حوالے سے جن تنازعات اور خبروں نے جنم لیااس بارے میں گورنر سندھ عمران خان اسماعیل نے آٹھ اکتوبر کو وفاقی وزیر علی زیدی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کراچی کے جزائر پردو نئے شہر آباد کرنا چاہتے ہیں اور جامع ماسٹر پلان کے تحت شہر آباد کیا جائے گا۔بنڈل آئی لینڈ پردو نئے شہر بننے سے روزگار میں اضافہ ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بنڈل آئی لینڈ اسلام آباد نہیں لایا جا رہا بلکہ کراچی ہی میں رہے گا، وفاق کسی چیز پر قبضہ نہیں کر رہا اور بنڈل آئی لینڈ کا ریونیو سندھ حکومت کو جائے گا۔

بنڈل آئی لینڈ سندھ کا حصہ ہے اور رہے گا۔دنیا بھر کے سرمایہ کاربڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اورپچاس ارب ڈالرز پاکستان آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ بنڈل آئی لینڈ میں عمران خان یا علی زیدی کا کوئی گھر نہیں ہو گا بلکہ نئے شہر بننے سے سیاحت میں بھی اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم نے بنڈل آئی لینڈ اور راوی منصوبے پر اجلاس کی صدارت کی اور بنڈل آئی لینڈ کی ترقی سے متعلق ورکنگ گروپ بنایا جائے گا جبکہ ورکنگ گروپ وفاق، صوبائی حکومت اور دیگر متعلقہ فریقوں پر مشتمل ہو گا۔

گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ جزائر کی ترقی پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے ہے اور جو بھی ترقی ہو گی صوبے کے عوام کواس سے فائدہ ہو گا۔جب تعمیرات شروع ہوں گی تو نوکریاں ملیں گی، لیکن یہاں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کراچی پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ اس موقعے پر علی زیدی کا کہنا تھا کہ ہم پانی کی صفائی کے پلانٹ بنا رہے ہیں اور جزائر کے معاملے پر سندھ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ تمام منصوبے سندھ کے لیے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ بنڈل آئی لینڈ دبئی کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا اور یہ تاثر غلط ہے کہ سندھ پر کوئی قبضہ کرنے جارہا ہے ۔ جب نیا شہر آباد ہوگا تو نوکریاں سندھ کے لوگوں کو ہی ملیں گی۔ ہم روزانہ بڑی مقدار میں گندا پانی اور سالڈ ویسٹ سمندر میں پھینک رہے ہیں۔سمندر کے پانی کا رنگ تک تبدیل ہوگیا ہے۔ گندےپانی کی ٹریٹمنٹ کے لیے پلانٹ لگائیں گے۔ سیاسی اختلاف ایک طرف ،ہم پاکستان کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں،سندھ حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔

اس پریس کانفرنس سے قبل وزیراعظم عمران خان سے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی جس میں گورنر سندھ نے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر پیش رفت کے حوالے سے وزیر اعظم کو تفصیلی بریفنگ دی تھی۔وزیراعظم نے گورنر سندھ کو ہدایت کی تھی کہ بنڈل آئی لینڈ منصوبے سے سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میسر آئیں گے،اس جزیرے سے متعلق امور سندھ حکومت کے ساتھ مل کر طے کیے جائیں۔

واضح رہے کہ جولائی میں سندھ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیے گئےخط میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی درخواست پرعوامی مفاد کے لیے جزیرے حوالے کررہے ہیں۔ جزیرے پر تعمیرات میں مقامی افراد اور ماہی گیروں کے مفادات کو تحفظ دیا جائے گا۔ جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علی نے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020′ جاری کیا تھا جس کے تحت ٹیری ٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976′ کے زیر انتظام ساحلی علاقے وفاق کی ملکیت ہوں گے اور سندھ کے تمام جزائر کی مالک وفاقی حکومت ہوگی۔ 

حکومت نوٹی فیکیشن کے ذریعے پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کرے گی۔تاہم آرڈیننس کےاجرا اورسندھ کے مختلف علاقوںمیں احتجاج کے بعد سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو لکھا گیا خط واپس لے لیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ سندھ کے ساحل اور جزائر صوبائی حکومت کی ملکیت ہیں، وفاقی حکومت کا جزائر پر ملکیت کا دعویٰ اور آرڈی نینس کا اجرا غیر قانونی ہے۔پھر یہ معاملہ عدالت چلا گیا۔

مذکورہ پریس کانفرنس میں گورنر سندھ نے کہا تھاکہ بین الاقومی سرمایہ کار بنڈل آئی لینڈ میں شہر بسانے میں دل چسپی لے رہے ہیں اور کراچی کے جزائر سے حاصل ہونے والا ریونیو سندھ حکومت کو جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے پچاس ارب ڈالر زاور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار آئیں گے۔ کراچی اور جزائر میں اصلاحات کو الگ الگ رکھیں۔بنڈل اور بڈو جزائر پر پینے کا صاف پانی اور نکاسی کا جدید نظام ہوگا۔ 

ساحلی پٹی کو ترقی دینے سے سب سے زیادہ فائدہ سندھ کے عوام کو ہوگا اور اس کی تکمیل کے لیے بنڈل آئی لینڈ کی ترقی سے متعلق ورکنگ گروپ بنایا جائے گا۔اس موقعے پر علی زیدی کا کہنا تھا کہ اس سے قبل مذکورہ جزائر کی لیز پورٹ قاسم نے دی تھی اور بنڈل آئی لینڈ 1973 کے ایکٹ کے تحت پورٹ قاسم اتھارٹی کا حصہ ہے۔ اس لیے معاملے کو سیاسی نہ بنائیں۔

تیرہ برس پیچھے

ان جزائر کو 2007میں بھی دبئی سے تعلق رکھنے والے ایک سرمایہ کار کے حوالے کرنے کے لیےایم او یو پر دست خط کیے گئے تھے۔ اس وقت بے نظیر بھٹو نے اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔دیگر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے بھی ا ن کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

بعض اطلاعات کے مطابقموجودہ وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے کہ ان جزائر پر بیس ارب ڈالرزمالیت کی میگا سٹی اسکیمز شروع کی جائیں گی۔پہلے وفاقی اور سندھ کی حکومت میں یہ طے پایا تھا کہ ان منصوبوں کے لیے ٹرمز آف ریفرنس حکومت سندھ طے کرے گی،لیکن پھر اچانک اس بارے میں صدارتی آرڈی نینس آگیاجس نے اس ضمن میں وفاق اور سندھ میں تنازع پیدا کردیا۔

ساحلی پٹّی کا ما حولیاتی نظام

پاکستان کی ساحلی پٹّی دس سو پچاس کلومیٹرز طویل ہے۔سندھ کی ساحلی پٹّی پر چھوٹے بڑے تین سو جزائر ہیں۔صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے اب ان تمام جزائر کا کنٹرول وفاق نے حاصل کرلیا ہے۔بڈّواور بنڈال نامی جزائر کراچی اور ٹھٹھہ کے اضلاع کی حدود میں واقع ہیں اور یہ کورنگی،پھٹّی اور جھڑی کریک سے قریب ہیں۔

ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فشر فوک فورم سے وابستہ کمال شاہ کے مطابق بڈو اور بنڈل کا معاملہ پہلی بار نہیں اٹھا ہے۔بلکہ دو دہائیوں میں ایسا تیسری مرتبہ ہوا ہےکہ بارہ سو ایکڑ پر پھیلے ان جزائر پر شہر بسانے کی بات کی گئی ہو۔یہ رقبہ کراچی کی ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے کُل رقبے کے مساوی ہے۔لیکن ہر مرتبہ ان جزائر کی ملکیت کے بارے میں پورٹ قاسم اتھارٹی اور سند حکومت کے درمیان تنازع پیدا ہوا۔2006،2013اور اب پھر سندھ حکومت کا یہ موقف ہے کہ یہ جزائر اس کی ملکیت ہیں۔

رام سر سائٹ

اس تنازعے سے قطع نظر ،اس معاملے کا ایک اور بہت اہم پہلو یہ ہے کہ یہ جزائر سندھ طاس کا حصّہ ہیں جسے رام سر کنونشن کے تحت محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے اور پاکستان نے اس کنونشن پر دست خط کیے ہیں۔ہم نے اس کے علاوہ بھی بعض ماحولیاتی معاہدوں پر دست خط کیے ہیں جن کا اس معاملے سے بہ راہ راست تعلق ہے ۔ رام سر کنونشن کے تحت دنیا بھر میں محفوظ قرار دیے گئے علاقے (ویٹ لینڈز) ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

چناں چہ بعض ماہرینِ ماحولیات کے مطابق ان جزائرپر شہر بسانے کے عمل سے نہ صرف ساحلی پٹّی کا ماحولیاتی نظام تباہ ہوجائے گااور پورے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے ملک کی ماہی گیری کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوگی ۔ ان جزائر پر اور ان کے گرد تمر کے جنگلات ہیں جو آبی حیات کے لیے افزایشِ نسل کے مراکز کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔سندھ طاس میں مصنوعی طور پر کی جانے والی تبدیلیوں سےتمر کی حفاظتی دیوار کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔اس کے نتیجے میں پورے سندھ کی ساحلی پٹّی سمندر کے سامنے عریاں ہو جائے گی اور سمندری طوفان اور سونامی کی لہریں ملک کے اقتصادی مرکز،کراچی، سمیت پوری ساحلی پٹّی کو تباہ و برباد کرسکتی ہیں۔

ماہرینِ ماحولیات اس ضمن میں تھائی لینڈ کی مثال دیتے ہیں جہاں ساحلی پٹی پر تجارتی بنیادوں پر کی جانے والی تعمیراتی اور دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے 2004میں سونامی کی لہریں تباہی لاتی رہتی ہیں۔اس کے بر عکس میانمار کا جائزہ لیں تو وہاںسونامی سے بہت کم تباہی نظر آتی ہے کیوں کہ اس کے گرد تمر کے جنگلات کی دیوار کھڑی ہے۔

آئیے، بڈّو اور بنڈل کی سیر کو چلیں

بڈّو نامی جزیرے پر ابراہیم حیدری سے لانچ کے ذریعے تقریبا بیس منٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔یہ تمر کے درختوں سے پُر سرسبز جزیرہ ہے۔ یہاں دن بھر اونٹ تمر کے پتّے کھاتے اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔یہ بات حیرت انگیز محسوس ہوتی ہے کہ اس جزیرے پر اونٹ کیسے پہنچے، یہ کہاں سے آئے،کس کی ملکیت ہیں اور یہاں کیسے زندہ رہتے ہیں؟دراصل یہ سمندر کے دوسری جانب واقع گاوں اور جنگل سے روزانہ تیر کر اس جزیرے پر تمر کے پتّے کھانےکے لیے پہنچتے ہیں اور شام ہونے پرلوٹ جاتے ہیں۔ اس جزیرے پر جنگلی حیات کی بھی کئی انواع پائی جاتی ہیں۔

بڈّو سے کشتی کے ذریعے مزید بیس منٹ کا سفر کرکے آپ بنڈل نامی جزیرے پر پہنچ سکتے ہیں جو سندھ طاس میں واقعے سب سے بڑا جزیرہ ہے۔اس کی طوالت آٹھ اور چوڑائی چار کلومیٹرز ہے۔اس جزیرے پر ایک مزار بھی ہے جہاں ماہی گیر برادری ہر برس عید کے بعد عرس کا اہتمام کرتی ہے۔ماہی گیرگہرے سمندر میں طویل سفر کرنے سے پہلے یا اس کے اختتام پر اس جزیرے پررک کر کچھ دیر کے لیے سستاتے ہیں۔لہذا آپ کو یہاں چند ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیاں بھی نظر آجائیں گی۔ماہی گیر یہاں مچھلیاں سکھانے اور اپنے جال کی مرمت کے لیے بھی آتے ہیں۔اس جزیرے کےقریب سے روزانہ تقریبا چار ہزار ماہی گیر کشتیاں گزرتی ہیں۔

تمر کی حفاظتی ڈھال

پاکستان کے صنعتی مرکز،کراچی کو صدیوں سے بحیرہ عرب کی پرجوش لہروں سے تحفظ دینے والے تمرکے جنگلات برسوں سے جاری غیرقانونی کٹائی اور گند آب کی نکاسی کے ناقص نظام کی وجہ سے بہت تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مینگروو کے جنگلات کی شکل میں قائم اس قدرتی رکاوٹ کے خاتمے کی صورت میں ڈھائی کروڑ سے زاید آبادی والا شہر شدید سمندری طوفان اور سونامی جیسے بڑے خطرات میں گھر جائے گا۔

دریائے سندھ کا ہمالیہ سے شروع ہونے والا طویل سفر،کراچی کے قریب سمندر میں گر کر ختم ہوتا ہےجہاں دریائی طاس پرتمر کے سرسبز جنگلات قائم ہیںجوایسا قدرتی نظام ہے جو کھارے اور تازہ پانی کے ملنے سے فروغ پاتا ہے۔تاہم اب ان جنگلات کا رقبہ بہت کم رہ گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر یہ چھ لاکھ ہیکٹر رقبے تک پھیلے ہوئے تھے۔

ان جنگلات کا بڑا حصہ غیرقانونی کٹائی، قریبی صنعتوں سے خارج ہونے والی آلودگی اور اوپری بہاؤ پر سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں کاشت کاری کے لیے آب پاشی کے نظام کے تحت دریاکے بہاؤ میں تبدیلیاں لانے سے متاثر ہوا ہے۔

تمر کے جنگلات میں پلنے والی مچھلیوں اور گھونگھوں کی فروخت سے اپنا روزگار کمانے والے ماہی گیر برسوں سے سمندری حیات کی افزایشِ نسل میں آنے والی کمی پر فکر مند نظر آتے ہیں۔ مگر کراچی کے ساحلی علاقے ابراہیم حیدری سے کچھ دیرکے لیے کشتی میں سیرکے دوران صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ مقامی آبادی کس طرح تمر کے درختوں کو کاٹ کر لے جارہی ہوتی ہے۔بعض افراد اس کے پتوں کو اپنے مویشیوں کی غذا کے لیے استعمال کرتے ہیںاوردیگر شاخیں فروخت کرکے اپنا روزگار کماتے ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ تمر کی کٹائی غیرقانونی ہے مگر ایسا کرنے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ سزا صرف 36 ہزار روپے تک جرمانہ ہے اور وہ بھی بہت کم ہی کسی ملزم کو دی جاتی ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی و صنعتی مرکز ہے، یہاں کارخانوں کی بڑی تعداد کے نتیجے میں دریائے سندھ کے طاس میں آلودگی بہت بڑھ چکی ہے۔کراچی کے مشرقی حصے میں ایک پاور پلانٹ کے قریب تمر کے درخت خشک ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے قریب مچھلیوں کی افزایش نسل متاثر ہوئی ہے۔دردمند دل رکھنے والے ماہی گیر گلوگیر لہجے میں کہتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر لوگ تمر کے درختوں کو کیوں نشانہ بناتے ہیں، یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ اپنے پڑوسی کا پیٹ خالی کرکے اپنا بھررہے ہوں۔ اگر ہم کسی اور ملک میں ہوتے تو ان جنگلات کو اہمیت اور تحفظ دیاجاتا،کیوں کہ یہ ساحلوں سے ٹکرانے والے سمندری طوفانوں کی شدت میں کمی لانے کے ساتھ سونامی کی صورت میں بھی دفاعی حصار ثابت ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں،1945 میں ایک زیرسمندر پیداہونے والے زلزلے کے نتیجے میں سونامی کراچی سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں چار ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اقوام متحدہ نے حال ہی میں ایک مصنوعی زلزلے کے ٹیسٹ کے بعد پیش گوئی کی تھی کہ سونامی آنے کی صورت میں کراچی کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، بلکہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ بھی سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق تمرکے جنگلات بہت اہم ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں۔یہ سمندری طوفان، سونامی اور دیگر قدرتی آفات کے سامنےہماراپہلا دفاعی حصار ہیں ۔ پہلے سندھ طاس میںتمر کی آٹھ اقسام ہوتی تھیں مگر چوں کہ اب میٹھے پانی کی آمد ہو نہیں رہی اس لیے ان میں سے پانچ اقسام یہاں زندگی کی جنگ ہار گئیں۔باقی تین اقسام ہیں جو یہاں کے ماحول میں جی سکیں۔چند دہائیوں میں ہم نے ایک ڈیڑھ لاکھ سے زائد تمر کے جنگلوں کو برباد کر دیا ہے۔آپ چند لمحے نکال کر ذرااس نکتےپر غورتو کریں کہ ہم نے کیا برباد کر دیا ہےاور ان جزیروں پرنئے شہر بسانے سے ماحول کو مزیدکتنا نقصان پہنچ سکتا ہے؟

تازہ ترین