یوجین لڈویگ
مصنف امریکی کرنسی کے سابق محاسب ہیں،اب ایک مشاورتی کمپنی پرونٹوری فنانشل گروپ کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔
امریکی معیشت کے لئے فیڈرل ریزرو کے سربراہ جے پاؤل کی مزید مضبوط حمایت کی درخواستوں کے باوجود ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کے ساتھ بات چیت ترک کردی ہے۔
مستقبل قریب میںکسی مالی محرک کے نہ ہونے کے امکان کے ساتھ معیشت کیلئے سرمایہ کاری کے حصول کے لئے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں کرنے کا بوجھ ریگولیٹرز پر آگیا ہے۔ شرح سود کو کم اور افراط زر کو منجمند رکھتے ہوئے مستحکم لیبر مارکیٹ کو برقرار رکھنے کا عہد کرتے ہوئےفیڈرل رزیرو نے گزشتہ ماہ راستے کی رہنمائی کی ہے۔
تاہم موجودہ مارکیٹیں عدم مساوات کو بڑھاتے ہوئے شاید قرض دینے والوں کو پہلے دولت مند افراد اور بڑی کمپنیوں کو خدمت فراہم کرنے کی ترغیب دیں گی۔خوش قسمتی سے ریگولیٹرز کے پاس متعدد اقلیتی برادیوں سمیت کاروباروں، کم آمدنی والے خاندانوں کو قرض فراہم کرنے کے لئے کئی طریقہ کار موجود ہیں،جہاں یہ سب سے اچھا کام کرے گا۔
کانگریس اور بینکاری ریگولیٹرز کو کمیونٹی ری انویسٹمنٹ ایکٹ میں توسیع سے آغاز کرنا چاہئے، جس کے لئے بینکوں کو مخصوص علاقوں سے گریز کرنے کی بجائے پوری برادری کو قرض دینے کی ضرورت ہے۔90ء کی دہائی کے اوائل میں، میں نے کلنٹن انتظامیہ میں سی آر اے ریگولیٹرز کے دوبارہ کام کرنے کے لئے بہت کام کیا اور پسماندہ طبقوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے لئے بینکوں کے شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کے لئے انضمام کے بہت استعمال کیا۔کم اورمعتدل آمدنی والے امریکی شہریوںکو قرض دینے میں بعد ازاں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ قواعد ایک بار پھر پس پشت چلے گئے۔کرنسی کے محاسب نے اس موسم گرما میں ان میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ، لیکن دیگر وفاقی ادارے اس سمت میں نہیں جارہے ہیں۔ریگولیٹرز کو اب صرف بینکوں پر اور قرض لے کر لگانے کے لئے ممکنہ انضمام کو استعمال کرنے پر سی آر اے کی توجہ مرکوز کرنے سے آگے جانا ہوگا۔
اگر ریگولیٹرز مائل کرنے کیلئے وعدوں اور دھمکیوں کے طریقہ کار کا صحیح استعمال کرنے کیلئے تیار ہوں تو مالی اداروں میں صرف کم منافع بخش قرض کے موقع کو قبول کیا جائے گا۔نوے کی دہائی میں بینکوں نے عمومی طور پر ان کی مختلف شاخوں کے آس پاس کے علاقوں کو خدمات فراہم کیں۔ جبکہ اس وقت مالیاتی ادارے اپنی موجودگی کے مقام سے کہیں دور ذخائر جمع کرتے ہیں اور قرضے اور دیگر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ریگولیٹرز کو یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سی آر اے کی شرائط جس میں قرض دینے والے پوری برادری کو خدمات فراہم کرنے کا دائرہ وسیع کریں جہاں وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
اس طرح کے قواعد کو بینکوں سے آگے قرض دہندگان، سرمایہ کاروں، انشورنس کمپنیوں اور ادائیگی فراہم کنندگان تک پھیلانا چاہئے، جو مالیاتی منڈی میں طاقت ور اثررسوخ والوں کے طور پر ابھرے ہیں۔تاریخ واضح کرتی ہے کہ جب حالات خراب ہوں تو نان بینک کو بھی حکومتی امداد کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ اسے حاصل کرتے ہیں۔اسی کے مطابق ، انہیں معاشرے میں وسیع خدمت کے انہی معیاروں پر پورا اترنا چاہئے۔
امریکا کی حکومت کو غیرمنافع بخش قرض دہندگان کو اضافی قرض دینے کی گنجائش بھی دینی چاہئے جو کریڈٹ سے محروم کم اور درمیانی آمدنی والی کمیونٹی کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔مینیسوٹا میں سن رائز بینک جیسے معاشرتی ترقیاتی مالیاتی ادارے روایتی بینکوں کی طرح نظر آسکتے ہیں لیکن چونکہ وہ منافع سے زیادہ مشن کے ذریعہ کارفرما ہوتے ہیں کیونکہ وہ کم آمدنی والی جماعتوں میں غیر متناسب اثر ڈالتے ہیں۔
مشکل وقتوں میں مالیاتی ریگولیٹرز کو قرض دینے والوں کو سوچ سمجھ کے خطرہ مول لینے والوں کو کچھ چھوٹ دینی چاہئے۔کوئی بھی قرض دینے والا محفوظ، ٹھوس اور صارفین کے اعلیٰ معیار کے مطابق اصولوں کو ترک نہیں کرسکتا۔ لیکن لون افسران اکثر وبیشتر ضرورت سے زیادہ محتاط ہوتے ہیں۔سیاہ فام امریکی تاریخی طور پر سب سے پہلے برطرف اور سب سے آخر میں دوبارہ ملازمت پر رکھے جاتے ہیں، جس سے چھوٹے کاروبار اور رہن والے قرضوں کی ادائیگی کرنے کی ان کی اہلیت متاثر ہوتی ہے۔
ریگولیٹرز قرض دہندگان کو طویل عرصے سے ضمانت کے طور پر استعمال ہونے والی املاک کی قدر جاننے کی اجازت دے کر کم آمدنی والوں کو قرض دینے کا خطرے سے نمٹنے کے لئے قرض دہندگان کو مجاز ٹھہراسکتے ہیں۔ان کی موروثی قدر کی عکاسی کرتے ہیں اور دائری تفریط زر کے اثر سے بچانے کیلئے مشکل وقت کے لئے بروئے کار لانے فنڈز تیار کرے۔امریکا کا بیشتر حصہ اس کریڈٹ کے لئے بے چین ہےجو فیڈرل ریزرو مزید دستیاب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔پالیسی سازوں کو چھوٹے کاروباروں، ملازمت پیشہ اور درمیانے طبقے کے خاندانوں کی خدمات کے لئے قرض دہندگان کو تحریک دینے کی ضرورت ہے،جو ایک وسیع البنیاد معاشی بحالی کو فروغ دے گا۔