• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سادہ لوح افراد کو دوسرے ملکوں میں جا کر پیسہ کمانے اور راتوں رات امیر بن جانے کے دلفریب جھانسے دینے کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ دنیا بھر میں ایک منظم نیٹ ورک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے وطن عزیز میں اس کے خلاف کامیابی حاصل نہ کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ جعلی ریکروٹنگ ایجنسیوں کے ورغلا کر بھیجے جانے والے افراد آئے روز کسی نہ کسی ملک کی سرحد پار کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں بہت سے پاکستانی اب تک کشتیاں ڈوبنے کے حادثات کی نذر بھی ہو چکے ہیں جبکہ سیکڑوں نہایت کسمپرسی کی حالت میں مختلف ملکوں کی جیلوں میں قید ہیں۔ اتوار کے روز ایرانی حکام نے سفری دستاویزات کے بغیر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے 500پاکستانی شہری گرفتار کرکے سرحدی شہر تفتان میں راہداری گیٹ پر پاکستانی حکام کے حوالے کر دیئے جن میں سے 77کا خیبرپختونخوا، 399کا پنجاب، پانچ کا سندھ، دو کا بلوچستان جبکہ 17کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے اور مختلف واقعات میں ملوث پاکستانیوں کی وجہ سے آئے روز بیرون ملک قومی سفارت کاروں کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اندرون ملک یہ معاملہ محض سطحی کارروائی تک محدود رہتا ہے جس سے انسانی اسمگلر دندناتے پھر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے اندر یا ملک سے باہر روزانہ اوسطاً 100سے 150کی تعداد میں 8سے 30سال عمر کی لڑکیوں کی تجارت بھی ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے انسانی اسمگلنگ روکنے سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی میں زیر التوا پڑا ہے۔ معاملے کی سنگینی کے پیش نظر ضروری ہو گا کہ اسے سرد خانے سے نکال کر موثر قانون کی شکل دی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین