• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیبلشمنٹ سیاسی امور سے فاصلہ اختیار کرنے لگی

اسلام آباد ( انصار عباسی ) کراچی والے پیر کو پیش آنے والے واقعے سے چند روز قبل جب پولیس نے رینجرز کے مبینہ دبائو پر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر)صفدر کو کراچی میں ایک ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کیا ،اس وقت اس نمائندے کو معتبر فوجی ذرائع نے بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات سے فاصلہ اختیار کر رہی ہے ۔ 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ کے جلسہ عام میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی معاملات سے دوری اختیار کر نے کا فوری مظاہرہ کیا گیا ۔

جلسہ پی ڈی ایم کی ایک بڑی سیاسی سرگرمی تھی ۔ تاہم کراچی کا واقعہ جہاں رینجرز نے مبینہ طور پر کیپٹن صفدر کیس سے غلط انداز میں نمٹا درمیانی شب میں آئی جی سندھ پولیس کو مبینہ طور پر اغوا کیا ، اس سے اسٹیبلشمنٹ کے ممکنہ طور پر ملوث ہو نے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو ئے ۔

زبانیں چلنا شروع ہو ئیں کہ کیپٹن صدر کو سندھ پولیس کے سربراہ نے اغوا کیا ۔یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہوا تاکہ مریم اور ان کے والد نواز شریف کو سبق سکھایا جائے۔جس بات نے مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کو پریشان کیا وہ یہ کہ کراچی پولیس کو کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر باور کرایا گیا ۔ اکثر کے خیال میں یہ ہماری سماجی اور تہذیبی اقدار کے منافی غیر اخلاقی حرکت تھی ۔

پیر کو جو غیر معمولی واقعات پیش آئے وہ منگل کو چارج شیٹ بن گئے ۔ابتدا میں وزیر اعلیٰ سندھ نے پریس کانفرنس کی اور وزارتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ۔وزیر اعلیٰ نے تاہم محتاط رویہ اختیار کر تے ہو ئے کسی کا نام لینے سے گریز کیا ۔سندھ پولیس کے سربراہ نے بڑے منفرد انداز میں ردعمل ظاہر کیا جسے ایک نرم بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے ۔

آئی جی ، اے آئی جیز اور متعدد ڈی آئی جیز سمیت درجن بھر اعلیٰ پولیس افسران نے رخصت پر جا نے کا فیصلہ کرلیا ۔ ان پولیس افسران نے کیپٹن صفدر کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ پولیس کی اعلیٰ کمانڈ کو بڑے دبائو کا سامنا ہے اور وہ ایسے ماحول میں کام نہیں کر سکتے ۔رینجرز کے اقدام پر پولیس کے ردعمل نے فوری طور پر شور بلند ہوا اور میڈیا میں بحث چھڑ گئی ۔

ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹ نے کراچی میں پیش آنے والے واقعات پر پنی گہری تشویش کا اظہار کیا ۔انہوں نے بر ملا کہا کہ پولیس سمیت ہر ادارہ احترام اور عزت کا مستحق ہے ۔

خود سندھ حکومت کے لئے واقعہ بے عزتی کا باعث رہا ۔بلاول بھٹو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایسآئی چیف لفٹننٹ جنرل فیض حمید سے معاملے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ۔ تب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کا اعلان آیا کہ جنرل باجوہ کی جانب سے کور کمانڈر کراچی کو واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ آرمی چیف کی جانب سے اعلان سے قبل صورتحال پیچیدہ اور سنیگین شکل اختیار کر تی جا رہی تھی ۔

آرمی چیف کی مداخلت نے صورتحال کی کشیدگی کو کم کیا ۔توقع ہے کہ آرمی چیف کی جانب سے تحقیقات کا نتیجہ عام کیا جائے گا اور واقعہ کے مرتکب کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی ۔

سویلین سیٹ اپ ، سیاسی حکومت اور پولیس کے محکمے کا احترام واجب ہے ۔انہوں نے بھی فوجاور دیگر قانون نافذ کر نے والے اداروں کی طرح بھاری قربانیاں دی ہیں ۔

ہر ادارہ احترام کا مستحق ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر ادارہ اپنے قانونی اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہو ئے فرائض منصبی انجام دے ۔توقع ہے کہ آرمی چیف کا اقدام سیاسی امور سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دور رکھنے کے ارادے کوظاہر کر تا ہے ۔

تازہ ترین