امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر پیساڈینا میں واقع ایک دفتر میں تاریخ رقم ہورہی ہے۔درحقیقت یہاں روزانہ ہی نت نئے کام کرکے تاریخ رقم ہوتی ہے ۔یہ امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلائی جہاز وائجر کامشن کنٹرول ہے جو جیٹ پروپلژن لیبارٹری (جے پی ایل )میں واقع ہے ۔گذشتہ 40 برسوں کے دوران دو وائجر خلائی جہازوں(وائجر 1 اور وائجر 2 ) نے سیارہ مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کا جائزہ لیا ہے۔ ان جہازوں نے دنیاکے نفصیلی مناظر زمین پر بھیجے ہیں جن میں برف سے ڈھکے، آتش فشاؤں سے اٹے اور ایندھن پر مشتمل اسموگ سے بھرے چاند بھی شامل ہیں۔
ان مشنز نے زمین پر ہمارے نکتہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے، اور اپنے ساتھ منسلک سنہرے گرامو فون ریکارڈز کے ساتھ یہ انسانی تہذیب کو اپنے ساتھ ستاروں تک بھی لے جا رہے ہیں۔حیران کُن طور پر دونوں وائجر خلائی جہاز اب تک کام کر رہے ہیں۔جب بھی وائجر 1 کوئی سگنل زمین پر بھیجتا ہے، تو یہ انسان کی تیار کردہ کسی بھی چیز کا سب سے دور سے آنے والا سگنل ہوتا ہے۔ 2013 ءمیں وائجر 1 ہمارے نظامِ شمسی کی حدود سے نکل گیا تھا اور یہ زمین سے 20 ارب کلومیٹر دور تھا۔وائجر 2 ایک مختلف راستے پر ہے اور یہ زمین سے 17 ارب کلومیٹر دور ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ایک ریڈیو سگنل کو وائجر 1 سے زمین تک آنے اور واپس وائجر 1 تک جانے میں 38 گھنٹے لگتے ہیں جب کہ وائجر 2 کے لیے یہ وقت 30 گھنٹے کے لگ بھگ ہے۔ یہ سگنل ناسا کا ڈیپ ا سپیس نیٹ ورک وصول کرتا ہے۔
یہ نیٹ ورک دنیا بھر میں نصب عظیم الجثہ سیٹلائٹ ڈشوں پر مبنی ہے جن کا کام دور دراز خلائی جہازوں سے ڈیٹا کا حصول ہے۔میڈینا کاکہنا ہے کہ خلائی جہاز پر نصب ٹرانسمیٹر 12 واٹ طاقت سے چلتا ہے، مگر اپنی زیادہ سے زیادہ طاقت پر یہ 20 واٹ توانائی استعمال کرتا ہے جو کہ کسی ریفریجریٹر میں لگے بلب جتنی توانائی ہے۔وائجر منصوبے پر کام کرنے والے سائنسدان ایڈ اسٹون کے مطابق وائجر 1 اب اس مادّے کو چھو رہا ہے جو ہماری زیادہ تر کائنات میں بھرا ہوا ہے۔
اس مشن نے زمین سے باہر موجود دنیا کے بارے میں ہمارے نکتہ نظر کو وسیع کیا ہے۔ ہم جہاں بھی دیکھتے ہیں ہمیں نظر آتا ہے کہ قدرت بہت زیادہ متنوع ہے۔ تانبے سے بنی یہ ڈسکس ایک ارب سال تک چل سکتی ہیں اور وینائل ریکارڈز جیسی ہیں۔ ان ریکارڈز کا مقصد کرۂ ارض کے انسانوں کی جانب سے دور دراز کی اجنبی تہذیبوں کو پیغام پہنچانا ہے۔ ان ریکارڈز میں آوازیں، موسیقی اور تصاویر بھی موجود ہیں۔
گولڈن ریکارڈ منصوبے کے ڈیزائن ڈائریکٹر اور آرٹسٹ جون لومبرگ کے مطابق اس مشن کے ذریعےہم یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ زمین کیسی ہے ،یہاں پر رہنے والے لوگ کیسے ہیں، اور ان ریکارڈز کو کس نوع نے بنایا ہے۔ وائجر 2 کو 20 اگست 1977 ءکو جب کہ وائجر 1 کو 5 ستمبر 1977 ءکو کیپ کیناویرال خلائی اڈے سے لانچ کیا گیا۔
ایڈاسٹون کے مطابق 'یہ وہ سال تھا جب یہ خلائی جہاز چاروں بڑے سیاروں کے قریب سے گزر سکتے تھے۔ ہمارا ارادہ پہلے خلائی جہاز کو مشتری اور زحل کی جانب لانچ کرنا تھا ، اگر یہ کامیاب رہتا تو دوسرا خلائی جہاز یورینس اور نیپچون کی جانب بھیجنا تھا۔ زحل پر کیسینی مشن کی سربراہ لنڈاا سپیلکر کا کہنا ہے کہ لانچ کے 18 ماہ بعد وائجر 1 اور وائجر 2 نے سیارہ مشتری کا جائزہ لینا شروع کردیا تھا اور بے مثال تفصیل سے اس کے بادلوں کی تصاویر اُتاری تھیں۔ خلائی جہازوں پر موجود ٹی وی کیمروں سے آنے والی تصاویر کا معیار حیرت انگیز تھا۔
وائجر مشن کی امیجنگ ٹیم کے سربراہ گیری ہنٹ کا کہنا ہے کہ 'جب بھی کوئی مشاہدہ کیا جاتاہےتو کوئی نہ کوئی نئی چیز سامنے آتی ہے ۔وائجر جہازوںکی مدد سے معلوم ہوا کہ یہ چاند پتھروں کے ٹکڑوں سے کہیں زیادہ تھے ۔ایڈ اسٹون کا کہنا ہے کہ 'وائجر خلائی جہازوں سے پہلے تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ آتش فشاں صرف زمین پر پائے جاتے ہیں،مگر پھر ہم مشتری کے چاند آئیو کے قریب سے گزرے جو حجم میں ہمارے چاند جتنا ہی ہے اور اس پر زمین سے 10 گنا زیادہ آتش فشانی سرگرمی ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق وائجر نے ہمارا نظامِ شمسی کے بارے میں وہ نکتہ نظر بالکل پلٹ دیا ،جس میں زمین ہی سب سے زیادہ اہم سیارہ تھی۔ وائجرسے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ واحد مائع سمندر صرف زمین پر ہے، مگر پھر ہم نے مشتری کے چاند یوروپا کی دراڑ زدہ سطح کو دیکھا اور بعدازاں یہ پایا گیا کہ اس کی سطح کے نیچے مائع پانی کا سمندر ہے ۔
نئےچھلے اور ایک چاند دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ وائجر خلائی جہاز نے زحل کے چاند ٹائٹن کا بھی جائزہ لیا۔ اس کی فضا گاڑھے پیٹرو کیمیکل سے بنی ہے اور یہاں پر میتھین کی بارش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایک اور چاند اینسیلاڈس کی قریبی تصاویر بھی لیں۔ برطانیہ کے حجم جتنی یہ ننھی منی سی برفیلی دنیا نظامِ شمسی کا سب سے زیادہ روشنی منعکس کرنے والا جسم ہے۔ دونوں ہی چاندوں کا بعد میں کیسینی ہوئیگنز مشن نے جائزہ لیا اور اب سائنسدان اینسیلاڈس کو زندگی کی موجودگی کے لیے موزوں ترین جگہوں میں سے قرار دیتے ہیں۔دی پلینٹری سوسائٹی کی سینیئر مدیر ایمیلی لکڑاوالا کا کہنا ہے کہ ان تمام چاندوں میں سے ہر ایک منفرد ہے۔ وائجر نے ہمیں سکھایا کہ ہمیں زحل کے چاندوں کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہاں کیسے مشن بھیجنے چاہییں۔
نومبر 1980 ءمیں وائجر 1 سیارہ زحل کو پیچھے چھوڑتا ہوا۔ نظامِ شمسی سے باہر نکلنے کے لیے اپنے طویل سفر پر نکلا اور دو ماہ کے بعد وائجر 2 نظامِ شمسی کے سب سے زیادہ باہر والے سیاروں کے طرف روانہ ہواہے۔ 1986 ءمیں یہ یورینس پہنچا اور اس نے گیس سے بنے اس عظیم الجثہ سیارے اور اس کے چھلّوں کی اولین تصاویر کھینچیں اور اس کے 10 نئے چاند دریافت کیے۔جب یہ خلائی جہاز 1989 ءمیں آخری سیارے نیپچون تک پہنچا تو وہاں پربھی ایک چاند تھا ،جس نے سائنسدانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ وائجر 2 نے ابھی تک جس آخری چیز کا مشاہدہ کیا ہے وہ پورے مشن کے اہم ترین مشاہدوں میں سےایک ہے۔اور یہ ابھی بھی مشاہدہ کرنے اور نت نئی چیزیں دریافت کرنے میں سر گرداں ہیں ۔