تسلیم اشرف
(سابق صدر شعبہ ارضیات ،وفاقی اردو یونیورسٹی)
کرۂ ارض پر ’’غار‘‘ یا ’’کہف‘‘ کے وجود کا مطالعہ اور مشاہدے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ حتیٰ کہ تہذیب و تمدن اور مذہب کے ابتدائی دور میں بھی اس کا واضح تذکرہ ملتا ہے۔ زمانہ حال میں بنی نوع انسان کا رویہ زیادہ تر ’’سائنسی‘‘ (قانون قدرت کا باقاعدہ مشاہدہ) ہے اور غاروں کے وجود اور مظاہرے کو کرامت کہہ کر ان کے بارے میں سوچ کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ ان کی تخلیق کے وجوہات جانے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ عقل و شعور انہیں ایسا سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ایک مستحکم، دیوہیکل چٹان کھوکھلی ہوکر غار میں کیسے تبدیل ہوگئی۔
اسی حوالے سے 1725ء میں پہلی بار ’’معلم ارضیات‘‘ نے اس کی پیدائش اور اس میں تشکیل پانے والی نایاب اشکال کی وجوہات کا تقریباً درست کھوج لگایا جسے آنے والے دور میں دنیا بھر کے سائنس دانوں نے متفقہ طور پر درست تسلیم کیا اور اس بات کی تصدیق بھی کی کہ غار زمین میں رستے ہوئے پانی اور نیچے موجود چونا سے بنی ہوئی چٹانوں کے باہمی ملاپ اور تحلیل عمل کے سبب آج سے تقریباً ہزاروں سال پہلے وقوع پذیر ہوا اور یہ ہنوز ابھی بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غار عموماً دنیا کے ان خطوں میں زیادہ تر پائے جاتے ہیں جہاں پانی اور چونا پتھر کی فراوانی ہوتی ہے۔ حاری (tropical)، نیم حاری(Sub-Tropical) اورمرطوب(Humid) خطے اس سلسلے میں سر فہرست ہیں۔ مثلاً فلوریڈا، جہلم، انڈیا اور کن ٹکی، ریگستانی اور قطبی خطوں میں ان عوامل کا اثر بہت کم ہوتا۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری زمین پر پائی جانے والی چٹانوں میں بظاہر جمود اور کوئی نمو نظر نہیں آتی لیکن میدانی سروے اور مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان میں حیرت انگیز تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ کرۂ آب، کرۂ فضاء اور کرۂ حیات براہ راست یا بالواسطہ ان چٹانوں میں موجود جمود کو توڑتی ہیں لیکن ان قدرتی عوامل میں سے زیادہ تر کا دائرہ اختیار سطح پر ہی موجود ہوتا ہے جب کہ پانی ایک ایسا قدرتی عنصر ہے ،جس کی پہنچ سطح پر بھی ہے اور زمین کے اندر بھی۔ چوں کہ غار کے وجود کا آغاز زیر زمین پانی اور چونے کی چٹان کے باہمی ربط سے ہوتا ہے ۔ یاد رہے کہ بارش کے پانی کا چوتھائی حصہ بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے یا بہہ کر سمندر یا کسی نشیب سے جا ملتا ہے۔
بقیہ پانی زمین میں جذب ہوکر زیر زمین پانی یا ذخیرہ اندوز پانی کہلاتا ہے لیکن زمین میں رستے ہوئے بارش کے پانی کی طرح ’’نرا پانی‘‘(pure water) نہیں ہوتا بلکہ اس میں مختلف گیسوں کی آمیزش ہوتی ہے، پھر یہ کشش ثقل کے زیر اثر زیر زمین اترتا چلا جاتا ہے۔ فضا میںبہت ساری گیسیں موجود ہوتی ہیں لیکن چٹانوں کے ’’تحلیلی عمل‘‘ میں آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ چٹانی جسم میں جو اجزاء موجود ہوتے ہیں وہ ان گیسوں کے ساتھ مل کر ایک نیا مرکب بناتی ہیں ،جس کی وجہ سے کیمیائی عمل کے ساتھ ان کی شکست و ریخت کا آغاز ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کسی چٹان میں لوہا موجود ہے تو اس کے اندر آکسیجن کے دخول سے یہ تبدیلی آتی ہے کہ چٹان پر بھورا بھورا زردی مائل زنگ لگ جاتا ہے۔ اس زنگ کی وجہ سے چٹانیں بہت نرم اور بھربھری ہوجاتی ہیں۔
اس نئے زنگ آلود مرکب کو ’’لیمو نائیٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب بارش کے قطرے ہوا سے گزرتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو اپنے اندر شامل کرلیتے ہیں۔ اب بارش کا پانی ،نرا پانی نہیں رہتا بلکہ کوئلے کے تیزاب کا پتلا سا مرکب بن جاتا ہے جو ’’کاربونک ایسڈ‘‘ کہلاتا ہے۔اس کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ پانی چونا یعنی کیلشیم کاربونیٹ کو آسانی کے ساتھ گھلا دیتا ہے۔ یعنی’’کاربونک ایسڈ‘‘ ناحل پذیر کیلشیم کاربونیٹ کو حل پذیر کیلشیم بائی کاربونیٹ میں تبدیل کردیتا ہے ،کیوں کہ ویسے بھی ایک ہمہ گیر محلّل (Solvent) کی حیثیت رکھتا ہے۔
چناں چہ جب یہ ایسے پتھروں پر گرتا ہے جن کے ذرات چونے سے جڑے ہوتے ہیں تو چونا گھل جاتا ہے اور ذرات جن کو چونے نے جوڑا تھا ایک دوسرے سے الگ ہوکر بکھر جاتے ہیں۔ یہ قدرتی میکنیزم اس وقت شروع ہوتا ہے جب کاربن ڈائی آکسائیڈ ملا پانی (کاربونک ایسڈ) زیزر زمین کیلشیم کاربونیٹ پر اثرانداز ہوتی ہے اور اسے حل پذیر کیلشیم بائی کاربونیٹ میں تبدیل کردیتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی میں ہر لمحہ موجود ہو۔
ان تمام عمل کے لئے ضروری ہے کہ ساکن و جامد ذرات میں حرکت پیدا کرنے کے لئے پانی جو اسے مئے پھر رہا ہے اپنی حرکی توانائی کا کچھ حصہ ذرات کو فراہم کردے۔ توانائی کا یہ تبادلہ حتمی طور پر پانی کی قوت اچھال، پانی کے تصادم (ساکن ذرہ کی سطح اور متحرک پانی کا ٹکرائو)، مد و جذر کی تبدیلی اور گردابی کیفیت سے منسلک ہوتا ہے۔
غارکے وجود میں آنے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب ’’کاربونک ایسڈ‘‘ زمین میں رستے رستے چونا پتھر کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ جب یہ ’’غیرنرا پانی‘‘ چونے کی ان چٹانوں سے گزرتا ہے تو چونے کے چھوٹے چھوٹے ذرات کو اپنے اندر ’’ہم جنس محلول‘‘ (Homogenous Solution) کی شکل میں بہالے جاتا ہے اور اس طرح چٹانوں کے گھلنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔
اس حوالے سے چٹانوں کی ساخت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ میدانی سروے کے دوران یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بعض چٹانیں بظاہر تو بڑی سخت معلوم ہوتی ہیں لیکن جن ذرات سے مل کر تشکیل پاتی ہیں ان کے درمیان بہت ہی چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں جنہیں ’’مسام‘‘ (Pore) کہتے ہیں۔ اگر یہ مسام ایک دوسرے سے منسلک ہوں تو نفوذ پذیر (permeable) کہلاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسا کہ درخت کے پتوں پر خوردبینی مسام جو ’’اسٹروماٹا‘‘ کہلاتے ہیں موجود ہوتے ہیں ،تاکہ زائد پانی سفر کرتے ہوئے فضا میں نکل جائے۔ مسام دار اور نفوذ پذیر چٹانیں پانی کو فوراً جذب کرلیتی ہیں یا پانی منسلک مساموں کے ذریعہ آسانی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے زیر زمین چلا جاتا ہے۔ لیکن جن چٹانوں کے ذرّے بہت باریک ہوتے ہیں اور آپس میں اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ ان میں کوئی باریک سا سوراخ بھی نہیں ہوتا تو ان سے پانی نہیں گزر سکتا۔ ایسی چٹانیں غیرمسام دار اور غیرنفوذ پذیر ہوتے ہیں۔
ہاں البتہ کبھی کبھی یہ ضرور ہوتا ہے کہ چٹان تو غیرمسام دار ہے لیکن زمینی حرکات کی وجہ سے جگہ جگہ دراڑیں، جوڑ، شگاف یا فالٹ (Fault) پیدا ہوجاتی ہیں تو ان میں بھی پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ پانی انہی گزرگاہوں سے گزرتا ہے اور اسے آہستہ آہستہ کشادہ کرتا چلا جاتا ہے اور مزید گزر گاہیں بھی پیدا کرتا ہے۔پانی انہی راستوںسے گھومتے اور بل کھاتے ہوئے نیچے اترتا جاتا ہے۔ بعض راستے بہت ہی کشادہ ہوکر زیر زمین بڑے بڑے خانوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں گویا چٹان نیچے سے بالکل کھوکھلی ہوگئی۔ زمین کے نیچے چونا پتھر بڑے بڑے کمرہ نما دالان میں تبدیل ہوکر حیرت انگیز منظر پیش کرتی ہیں۔ یہی بڑے بڑے دالان غار یا کہف کہلاتے ہیں۔
غار کا وجود تو کاربن ڈائی آکسائیڈ ملے پانی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن غار کے اندر نمودار ہونے والی نقاشی اس گیس کی فضا میں فرار ہونا قرار دیا گیا ہے ،کیوں کہ اس گیس کی موجودگی پانی میں ہمیشہ یکساں نہیں رہتی بلکہ اس کی مقدار علاقے کی تبدیلی آب و ہوا اور عمل کے اثرات کی وجہ سے کم ہوتی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ کیلشیم بائی کاربونیٹ جو پانی میں حل پذیر حالت میں تھا دوبارہ ناحل پذیر ہوکر ’’کیلسائیٹ‘‘ یعنی کیلشیم کاربونیٹ میں تبدیل ہوکر غار کی چھت سے آہستہ آہستہ چھن کرفرش پر گرتا رہتا ہے۔ پانی کا ہر قطرہ غار کی چھت سے پہلے تھوڑی دیر تک لٹکا رہتا ہے۔ اس تھوڑے سے وقفے کے دوران قطرے میں سے کچھ پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ جب پانی کا یہ قطرہ غار کے فرش پر گرتا ہے تو کیلسائیٹ کی مقدار چھت پر لگی چھوڑ جاتا ہے۔
ایک لمبی مدت کے بعد چھت پر جمنے والا یہ قطرہ بڑھتے بڑھتے آخرکار پتھر کے آویزوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ چونے (کیلشیم کاربونیٹ) کے بنے ہوئے آویزے غار کے چھت سے نیچے کی طرف لٹکتے رہتے ہیں۔ ان معلق رسوب کو کلسی ’’آویزاں‘‘ (Stalactite) کہتے ہیں۔ جب غار کی چھت سے پانی کا کوئی قطرہ نیچے فرش پر گرتا ہے تو قطروں پر قطرے گرتے رہنے کی وجہ سے ’’غار‘‘ کے فرش پر بھی ’’کیلسائیٹ‘‘ کے رسوب مرکوز ہوتے رہتے ہیں۔ یوں جمنے والا یہ مادہ تہہ در تہہ فرش سے چھت کی جانب لند ہوتا ہوا پتھر کے ایک ستون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ فرش پر جمے ہوئے یہ رسوب ’’کلسی فرشی‘‘ (Stalactite) کہلاتے ہیں۔
جب رسوب کلسی آویزاں اور کلسی فرشی بتدریج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور ایک غارکو کئی دالانوں میں منقسم کردیتے ہیں تو ایسی صورت میں تشکیل پانے والی شکل کو مکمل ’’کلسی ستون‘‘ کہا جاتا ہے۔ جن چٹانوں کے ذرّے نمک یا جپسم یعنی ایک قسم کی کھر یا مٹی سے جڑے ہوتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہوتا ہے یعنی پڑتے ہی وہ بھی یونہی بکھر جاتے ہیں اور بنے کا عمل بھی چونا پتھر جیسی چٹانوں کی طرح کا ہوتا اور اشکال بھی بالکل اسی طرح کی۔
’’قدیم ارتقائی تاریخ‘‘
غاروں کی کھدائی سے نشانیاں اور شواہددریافت ہوئی ہیں ،جس سے غار میں رہنے والے دور اول کے انسانی ارتقائی تاریخ کی تصویر واضح ہوجاتی ہے۔اور اس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ قدیم انسان نے سب سے پہلے جوارضی اشیاء استعمال کی، اس کی نوعیت ادھاتی (Non-metallic) تھی یعنی سنگ چقماق، چرٹ، کوارٹز اور بعض دوسرے سخت و نرم پتھر مثلاً کوارئزئیٹ، سوپ اسٹون یا لائم اسٹون وغیرہ جو ہتھیار اوربرتن بنانے میں استعمال کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ کلے (مٹی) کو وسیع پیمانے پر پہلے کوزہ گری اور بعد میں اینٹیں بنانے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ اس میں شک نہیں کہ ’’کلے‘‘ ہی بڑے پیمانے پر معدنی صنعت کی بنیاد بنی۔
ایسی صنعت جو زمانہ کی ترقی یافتہ تبدیلیوں کے باوجود آج بھی مسلسل قائم ہے۔ 2006ء میں ’’کولمبیا یونیورسٹی‘‘ کی ٹیم نے غار کے ان حصوں کو دریافت کیا ،جس پتھر کے دور سے لے کر موجودہ زمانے تک انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقائی مراحل کی تاریخ ملتی ہے۔ اس غار کو ’’شانیدار غار‘‘ (Shanidar Cave) جو عراق پہاڑی علاقہ (زیگراس پہاڑی) کے اطراف موجود ہے۔ اس غار کے بار ےمیں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آج کل کرد کسانوں کا ایک قبیلہ آباد ہے جب کہ تقریباً ایک لاکھ سال سے یہ غار ان کے آبا و اجداد کا مسکن تھا لیکن بیرونی دنیا سے ان کا ابھی تک کوئی تعلق نہیں۔
کھدائی کے بعد ان کی طرززندگی کے بعض حقائق سامنے آئے کہ دور اول کے انسان اپنے گھریلو معاملے میں کچھ زیادہ سلیقہ مند نہیں تھے ۔انہوں نے ناکارہ اشیاء، ففلے اور کچروں کو تلف کرنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیا تھا بلکہ ان اشیاء کومٹی یا ریت میں دبا دیتے تھے اور پھر اوپر تلے تہوں کے بننے کا سلسلہ جاری رہتا ۔ محققین کو غارکی کھدائی کے دورملنے والی چیزوں سے انسانی ارتقا کی تاریخ کے مخصوص دور کو اُجاگر کیا ۔
اس طرح اس غار کی کھدائی سے محققین کو غار کے فرش کے نیچے کپڑوں اور گندی کی چار بڑی تہیں دفنیے کی صورت میں ملیں۔ ان میں ہر ایک تہہ انسانی ارتقا کی تاریخ کے ایک مخصوص دور کو اُجاگر کرتا ہے ۔ چوں کہ چونے کی چٹانیں زیر زمین پانی کے ملاپ سے تشکیل پاتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ زیرآب بھی دریافت ہوتی ہیں۔ اس کا انحصار سطح آب (Water table) کے اوپر نیچے ہونے پر ہوتا ہے۔جب سطح آب نیچے ہوتی ہے تشکیل شدہ غار خشکی کا حصہ ہوتی ہے لیکن جب سطح آب اوپر ہوجاتی ہے تو یہ غار اپنی تمام تر قدیم نشانیوں کے ساتھ زیر آب چلی جاتی ہیں۔
ایسا ہی ایک غار امریکا کی ریاست فلوریڈا میں دریافت ہواہے جسے ’’واکلا‘‘ (Wakula cave) غار کہا جاتا ہے۔ یہ فلوریڈا سے 14میل جنوب میں ’’تلاہاسی‘‘ (Tallahasee) اور 5میل ’’کرافورڈویلا‘‘ (Crawford villa) کے مشرق ’’ویکولا‘‘ میں واقع ہے۔ 1850ء میں اس غار کی دریافت ہوئی۔ ماہرین ارضیات کے غوطہ خوروں نے 1200فیٹ گہرائی سے میمل (Mammel) کے قدیم انواع ماسٹوڈان (mastodon) کی موجودگی کا پتہ لگایا ،جس کی تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ ’’گلیشیر‘‘ دور کے آخری مراحل کی نمائندگی کرتا ہے۔