• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سچی بات یہ ہے کہ الزامات اور جھوٹ کی سیاست پر کچھ لکھنے کی طرف طبیعت راغب نہیں ہوتی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے غلط بیانی اور مبالغوں کے دریا بہائے جارہے ہیں۔ قوم اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ انتخابات ہونے چاہئیں اور اپنے مقررہ دن پر ہونے چاہئیں تاکہ ہماری سیاست کی رگوں میں نیا خون شامل ہو اورہم بحیثیت قوم آگے بڑھیں۔ ویسے میں ذاتی طور پر ان دونوں باتوں کے بارے میں مشکوک ہوں۔ اول سیاست کی رگوں میں نیا خون اور دوم قوم آگے بڑھے۔ اب تک کے قرائن اور سیاسی اشارے ان دونوں خوش فہمیوں کی حمایت نہیں کرتے۔ لگتا ہے سیاست کی رگوں میں وہی پرانا خون دوڑتا رہے گااور ترقی کے حوالے سے بھی وہی کچھ ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ آپ اسے مایوسی سمجھیں گے جبکہ میرے نزدیک یہ حقیقت پسندی ہے چونکہ ماضی کی معاشی ترقی اور سیاسی پیش رفت کا سارا ریکارڈ میرے سامنے ہے اور اس پر نگاہ ڈالی جائے تو موجودہ دعوے، وعدے اور پارٹی منشور محض جھوٹ اور خواب لگتے ہیں۔ اس قوم کے ساتھ سب سے بڑی ٹریجڈی یہی رہی ہے کہ اسے بار بار خواب دکھائے جاتے رہے ہیں اوروہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے اس کے باوجود قوم وعدوں اور خوابوں پر یقین کرلیتی ہے۔ اس لئے میرے نزدیک قوم تمغہ حسن کارکردگی کی مستحق ہے۔
انتخابات تو انشا ء اللہ ہوں گے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس خوف و ہراس کے سائے میں لوگ ووٹ دینے نکلیں گے؟ ابھی تک تین صوبے دہشت گردی اور انتخابات مخالف قوتوں کے نشانے پر ہیں۔ جہاں سیاسی جلسہ کرنا، عوامی رابطہ مہم چلانا اور جلوس نکالنا ناممکن ہوگیا ہے۔ امیدواران کو ووٹ مانگنے کی بجائے اپنی حفاظت کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور بعض سیاسی جماعتوں اور طالبان کے درمیان محاذ آرائی قتل و غارت کامنظر پیش کر رہی ہے۔ پی پی پی جیسی پرانی اور پختہ ووٹ بنک والی پارٹی ابھی تک نہ باہر نکل سکی ہے اور نہ ہی الیکشن مہم میں شامل ہوئی ہے۔ اخبارات میں بڑے بڑے رنگین اشتہارات یا ٹیلی وژن پر بھٹو اور بینظیر کے مناظرانتخابی مہم کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ ظاہر ہے کہ پی پی پی اپنے منصوبے کے مطابق بلاول کو سیاسی میدان میں اتارنے سے خوفزدہ ہے کیونکہ آج کل کے ماحول میں دھمکیوں کو حقیقت بنتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ اے این پی اور متحدہ ان دھمکیوں کی قیمت اداکرچکی ہیں اور محدود ہو چکی ہیں۔ ظاہر ہے یہ انتخابات آزادانہ اور بے خوف ماحول میں نہیں ہوں گے اور خوف و ہراس کی فضا میں عام شہری کے لئے بھی ووٹ ڈالنا جان جوکھوں کا کام ہوگا ۔ اندازہ یہی ہے کہ صرف ایسے لوگ ووٹ ڈالنے جائیں گے جو کسی پارٹی یا لیڈر سے جذباتی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ عام ووٹر خطرہ مول لینے سے گھبرائے گا۔ اگرچہ 17 پارٹیوں نے مل کرمطالبہ کیا ہے کہ پولنگ فوج کی نگرانی میں کروائی جائے اور فوج بھی ہر قسم کی مدد دینے کو تیار ہے لیکن میری رائے میں اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا اور نہ ہی عام شہریوں کے خوف و ہراس میں کمی واقع ہوگی۔ فوج بہت سے علاقوں میں دہشت گردوں سے نبردآزما ہے لیکن پورے سازوسامان اور حالت ِ جنگ میں ہونے کے باوجود فوجی دستوں پر خودکش حملے بھی ہو رہے ہیں اور فوجی شہید ہو رہے ہیں۔ مخصوص علاقوں میں جنگ کے باوجود دہشت گرد شہروں میں بھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ ان کا نیٹ ورک کتنا منظم اور وسیع ہے۔ کل تک منگل باغ مردہ تھا اب وہ زندہ ہو گیا ہے۔ بہرحال ہمارے دانشوروں کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ یہ ہماری جنگ ہے اور جنگ کی آگ ہماری دہلیز پر آن پہنچی ہے۔ اب یہ غیرملکی جنگ نہیں رہی اور امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا بہرکیف اس بات کی ضمانت نہیں کہ ہماری سرحدوں کے اندر جنگ کی آگ بجھ جائے گی۔ مجھے تو اندیشہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد ان گروہوں کو افغانستان سے کھلے عام مدد ملنا شروع ہو جائے گی۔
ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ اس وقت تین صوبوں میں انتخابی مہم ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ امیدواروں اور پارٹی دفتروں پر حملے ہو رہے ہیں اور اس خوف و ہراس کی فضا میں ٹرن آؤٹ خاصا کم ہونے کا اندیشہ ہے۔ پنجاب فی الحال محفوظ ہے لیکن کیا پنجاب گیارہ مئی تک اسی طرح محفوظ رہے گا؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔ بے شک طالبان کے ترجمان نے سیاسی پارٹیوں کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی ہے لیکن میرے مشاہدے کے مطابق ایسی لکیروں کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ میری دعا ہے کہ اللہ سبحانہ  تعالیٰ ہمارے ملک اور ہماری پوری قوم کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ دہشت گردی صرف تین صوبوں تک محددود رہے گی۔ مجھے ا ندیشہ ہے کہ سیاسی اور انتخابی و جمہوری عمل کے مخالفین پنجاب میں بھی کارروائیاں کریں گے اور ان کارروائیوں کا نقطہ عروج گیارہ مئی ہوگا۔ بدقسمتی سے نگران حکومتیں ڈنگ ٹپاؤ، ناتجربہ کار اور نااہل ہیں اور ان درشنی پہلوانوں میں درپیش سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کی نہ سکت ہے اور نہ ہی اہلیت… اب تک تو آپ کو پنجاب میں جوش و خروش نظر آ رہاہے لیکن اگر خدانخواستہ پنجاب میں تخریبی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیاتو یہاں بھی ووٹوں کی پولنگ کم ہوگی۔ نوجوان مقابلتاً زیادہ جوشیلے اور نڈر ہیں۔ وہ جس پارٹی کے پلڑے میں ووٹ ڈالیں گے وہ فائدے میں رہے گی ورنہ خوف و ہراس کی فضا سب سے زیادہ بزرگ، پڑھے لکھے اور خوشحال ووٹروں پراثر انداز ہوگی۔ میرے کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کیٹگری میں کن جماعتوں کے زیادہ ووٹرز شامل ہیں۔
گزشتہ انتخابات کے اعداد و شمار میرے سامنے رکھے ہیں۔ کس انتخاب میں کتنے فیصد ووٹ پڑے اور کس پارٹی نے کتنے ووٹ لئے، یہ چارٹ میرے سامنے ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے انتخابات موجودہ انتخابی فضا میں غیرمتعلق Irrelevant اور کسی حد تک بے محل ہوچکے ہیں۔ اس لئے ان کے حوالوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ موٹی سی بات ہے کہ موجودہ انتخابات بہرحال آزادانہ اور منصفانہ فضا میں نہیں ہو رہے اس لئے ان کا موازنہ سعی لا حاصل ہے۔ مجھے یہ انتخابات خون میں نہائے لگتے ہیں۔ میری دعا ہے ایسا نہ ہو۔
مختصر یہ کہ موجودہ سیاسی پس منظر میں دو انتخابی منظرنامے ابھر رہے ہیں۔ اول یہ کہ دہشت گرد صرف ان تین صوبوں تک کارروائیاں محدود رکھیں جہاں وہ اعلان کرچکے ہیں۔ اس صورت میں وہاں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ خاصا کم رہے گا۔ اس صورت میں کچھ سیاسی پارٹیاں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔ یہ بھی ایک طے شدہ اصول ہے کہ اگر ووٹروں کاٹرن آؤٹ کم رہے تو انتخابی نتائج مشکوک ہو جاتے ہیں، جمہوری عمل کمزور ہو جاتا ہے، داخلی حوالے سے محاذ آرائی اور سیاسی تفریق بڑھتی ہے اور ان انتخابات کے نتیجے کے طور پر بننے والی حکومت یا حکومتیں کمزور ثابت ہوتی ہیں۔ اس صورت میں سب سے بڑا اندیشہ صوبوں کے درمیان تفریق کا ہے جس سے قومی یکجہتی کا تصور کمزور ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ طالبان نے یہ حکمت عملی اپنائی ہی اس لئے ہو کہ اس سے پاکستان میں باطنی تقسیم بڑھے گی اور چھوٹے صوبوں میں بڑے صوبے کے خلاف نفرت کی لہر پیدا ہوگی جس سے فوج اور حکومت دونوں کمزور ہوں گی۔
دوسرا منظرنامہ یہ ہے کہ کچھ دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پنجاب میں بھی بے یقینی اور خوف کی فضا پیدا کردیں۔ اس سے ووٹروں کا ملکی سطح پر ٹرن آؤٹ کم ہوگا۔ چنانچہ ان انتخابی نتائج سے جنم لینے والی حکومتیں مخلوط حکومتیں ہوں گی جن سے بڑے فیصلوں اور بہتر کارکردگی کی توقع ایسا خواب ہے جو شاذونادر ہی پورا ہوتاہے کیونکہ مخلوط حکومتوں کازیادہ وقت کمپرومائز، سمجھوتوں اور اپنے آپ کو بچانے میں صرف ہو جاتا ہے۔ ان تمام اندیشوں کے باوجود انتخابات کا ہونا ہی قومی مفاد میں ہے اور نتائج کا تسلیم کیا جانا ہی وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ آیئے دعا کریں کہ بہتری کی کوئی صورت نکلے۔ ہوسکتا ہے ہماری دعائیں قبول ہو جائیں۔
تازہ ترین