• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ کی عمر تقریباً 70سال ہے۔ آزادی کے پہلے تین سال تو مہاجرین کی آباد کاری میں گزر گئے۔ آزادی کے بعد پہلا صدمہ 11ستمبر 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے طور پر ملا۔ اس کے بعد 16 اکتوبر 1951 کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل کمپنی باغ راولپنڈی میں ہوا۔ قاتل ایک افغان سعد اکبر نامی شخص تھا۔ جس کے خاندان نے بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی تھی، سعد اکبر کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کی فوج میں کام کرتا رہا تھا۔ جب سعد اکبر نے وزیر اعظم لیاقت علی خان پر تین فائر کئے اور وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس کو سب انسپکٹر محمد شاہ نے موقع پرہی ڈھیر کردیا۔ جب یہ قتل ہوا تو اس وقت وزیر اعظم کے قریب ایس پی نجف خان اور راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر جمیزہاڈی تھے انہوں نے تحقیقاتی جماعت کو بتایا کہ انہوں نے سب انسپکٹر محمد شاہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس وقت کے اخباروں نے بھی وزیر اعظم کے قتل کو خبروں میں اہمیت نہ دی ۔لیاقت علی خان کے پراسرار قتل کے شواہد بھارت کی طرف جاتے تھے مگر کوئی بھی سیاسی اور سرکاری ردعمل سامنے نہ آیا۔

شہید وزیراعظم لیاقت علی خان کے بعد سیاست کا ایک ایسا کھیل شروع ہوا کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے پاکستان پر پھبتی کسی کہ پاکستان نے جتنے وزیراعظم بدلے ہیں اتنے تو میں نے اپنے پاجامے نہیں بدلے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت پاکستان سے کتنا بغض اور کینہ رکھتا تھا ۔پاکستان اس وقت امریکہ کا حلیف تھا اور بھارت روس کے ساتھ تھا۔ جب سکندر مرزا گورنر جنرل بن گیا تو اس کو سیاسی لوگوںسے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اس نے اپنے تحفظ کے لئے فوج کے سپاہ سالار جنرل ایوب خان کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیا جن کو اس عہدہ تک لانے میں گورنر جنرل سکندر مرزا کا کافی ہاتھ تھا۔ ایوب خان امریکی سرکار کے بھی قریب تھا اور 1958 کا مارشل لا لگایا تو امریکی سرکار کے مشورے سے سکندر مرزا کو ملک بدر کیا گیا اور ملک میں جمہوریت کو لپیٹ دیا گیا۔

جنرل ایوب خان نے صدر کا عہدہ اپنایا اور ملک میں بنیادی جمہوریت کی بنیاد رکھی، جس کے بی ڈی ممبرز براہ راست صدرپاکستان کا انتخاب کرتے تھے۔ یہ ایک طرح سے امریکی طرز انتخاب کا چربہ تھا۔ جب ایوب خان نے صدر کا الیکشن لڑا تو اس کامقابلہ قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح سے تھا۔ جن کی ان انتخابات میں نہ صرف کردارکشی کی گئی بلکہ انتخابات میں دھاندلی کر کے ایوب خان صدر بن گئے۔پاکستان کے ایک اوروزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایوب کے وزیر تھے اور سیاسی مشیر بھی۔ 1965 کی جنگ کے بعد ان کے ایوب خان سے تعلقات خراب ہوگئے اور انہوں نے ایوب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا، ملک پر دوبارہ مارشل لا کا آسیب آگیا۔ ایوب خان نے اقتدار سپیکر کو دینے کی بجائے فوج کے کمانڈر انچیف یحییٰ خان کو منتقل کردیا۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان میں بھارت اپنا رسوخ بڑھا چکا تھا۔ یحییٰ خان نے انتخابات کروا دیئے، مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن کی جماعت نے اکثریت حاصل کرلی ۔ پھر سیاست میں سازشوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے ملک کو دو لخت کر دیا،مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بہ امر مجبوری سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر لایا گیا ۔ پاکستان کو دو لخت کرنے میں ان کا کردار بھی قابل فراموش نہیں۔پھر جو انہوں نے ا یوب خان کے ساتھ کیا وہ ہی ان کے ساتھ ان کے اپنے سپاہ سالار جنرل ضیاء نے کیا اور جب ذوالفقاہ علی بھٹو کسی سیاسی حل کے لئے تیار ہوئے تو فوج نے ان کی کمزوری بھانپ لی اور امریکی سرکار سے مشاورت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی سرکار کی بساط لپیٹ دی اور ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب روس افغانستان پر قابض ہونے کے لیے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر چکا تھا ، امریکہ کو روس کاافغانستان میں آنا قابل قبول نہ تھا ۔ اس نے پاکستان کو افغانستان میں جنگ لڑنے والوں کے لئے پناہ گاہ کے طور پر تیار کیا اور افغانستان میں مجاہدین امریکہ کی جنگ لڑنے لگے ۔تاہم جب جنرل ضیاء کو امریکی ارادوں کا اندازہ ہوا تو خاصی تاخیر ہو چکی تھی،امریکہ نے جنرل ضیاء کو قتل کروا دیا۔ اب کی بار مارشل لا تو نہ لگ سکا سول حکومت نے انتخابات کرائے اور پیپلز پارٹی کی شہید لیڈر بے نظیر بھٹو کو سرکار بنانے کا موقع دیا گیا ان کے مقابلے کے لیے نواز شریف کو لایا گیا جو جنرل ضیاء کی وجہ سے فوج کے زیر اثر تھے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھےاور ایسے شرمناک کھیل کھیلے گئے کہ یہ دور پاکستان میں سیاست کا’’ عشرہ زیاں ‘‘ کہلایا ۔اپنے دوسرے دورِ وزارتِ عظمٰی میں نواز شریف نے جنرل مشرف کو سبکدوش کرنے کا فیصلہ کیا مگر ان کے غلط فیصلے نے ملٹری سرکار کی راہ ہموار کردی اور جنرل مشرف نے بیرونی دبائو پر نواز شریف کو خاندان سمیت جلا وطن کر دیا ۔ یہ ہماری سیاسی اور جمہوری تاریخ ہے جو کسی طرح بھی قابل فخر نہیں ہے۔

اب ایک بار پھر سابق وزیر اعظم نے فوج کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی ہے جس کے بعد ہماری فوج کو اندازہ ہوگیا کہ جمہوریت کو چلانا اور بچانا ضروری ہوگیا ہے اور شنید ہے کہ اسی وجہ سے بلاول بھٹو کی حیثیت تسلیم کرلی گئی ہے۔ عمران خان نے سب کو مایوس کیا ہے۔حکومت کے بعض اقدامات سے جمہوریت کمزور اور ادارے بے توقیر ہو رہے ہیں۔ اب کی بار کوئی بھی غلطی کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی سیاست دانوں کو مزید نظر انداز کرکے جمہوریت کو کمزور کرنا مقصود ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین