کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”جرگہ“کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے آج کے مہمان کے نظریات سے اختلاف کیا جاسکتاہے مگر ان کی زندگی پر رشک کرنے کو بھی دل چاہتاہے۔
ایک بھرپور اور جدوجہد سے عبارت زندگی انہوں نے گزاری۔ سابق وزیراعظم و امیر حزب اسلامی افغانستان انجینئر گلبدین حکمت یار نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ کابل حکومت کو منتخب یا نمائندہ حکومت کہناغلط ہوگا۔
امریکا کے پاس انخلا کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں،امریکی ظاہری موجودگی ختم کریں گے اورخفیہ موجودگی قائم رکھیں گے،کشمیر کی جنگ افغانستان میں نہیں ہونی چاہئے، بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے باہمی تنازعات حل کرے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وضاحت کرنا چاہوں گا آپ نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمارا نام بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں شامل ممالک نے ہمارا نام بلیک لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا ان ہی سب نے بلیک لسٹ سے ہمارا نام نکالا ہے۔امریکا کی بلیک لسٹ میں ہمارا نام اب بھی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ امریکا پر ہمارے بڑے اعتراضات ہیں ہمارے قیدی اب بھی گوانتا ناموبے میں ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان باہمی صلح و امن کی پالیسی پر گامزن ہے ۔میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان اس نتیجے پرپہنچ گیاہے کہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچ جائے۔پاکستا ن نے امن کی بحالی کے لئے بہت کردار ادا کیا ہے چاہے وہ طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی شروعات ہویا پھر امن معاہدے پر دستخط ہوں ان سب میں پاکستان کا بہت بڑا کردارہے۔
اس طرح اب جب بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے ہیں اس میں بھی پاکستان کا بہت بڑا کردار ہے۔امریکا بھی اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان نے امریکاکے ساتھ اس حوالے سے تعاون کیا جہاں بھی کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے تو پاکستان نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔میں نے یہاں آکر اب تک جو ملاقاتیں کی ہیں وہ اطمینان بخش ہیں۔
وزیر خارجہ کے ساتھ دو گھنٹے تفصیلی ملاقات کی ہے اوراسی طرح چیئرمین سینیٹ کے ساتھ بھی مفید ملاقات ہوئی ہے۔پاکستانی قیادت کی کوششوں کے نتیجے میں جوپیش رفت ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔
افغانوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ یہ جنگ جتنی جلدی ہوختم ہوجائے وہ لڑائی چاہنے والوں سے نفرت کرتے ہیں صلح کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں جو صلح چاہتے ہیں۔
افغان حکومت اور طالبان نے جو مذاکرا ت کا سلسلہ شروع کیا ہے مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی فائدہ ہوگا مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ کابل حکومت صلح کا کوئی ارادہ رکھتی ہے نہ کوئی عزم ایسا لگ رہا ہے کہ وہ جنگ کو دوام دینا چاہتے ہیں۔
یہ جنگ سے فائدہ اٹھانے والے ہیں جنگ کے نتیجے میں ان کے زندگیاں سنور گئی ہیں ان کو عہدے ملے ہیں ان کی زندگی جنگ کے ساتھ منسلک ہے جنگ ختم ہوگی تو وہ ختم ہوجائیں گے۔