جنگ پینل: ارشد عزیز ملک، احتشام طورو ،پشاور
عکّاسی: فرمان اللہ جان، فیاض عزیز
خیبر پختون خوا حکومت نے بھارتی فلم نگری کے دو سُپر اسٹارز، یوسف خان عرف دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ان گھروں کا سروے مکمل کرکے سیکشن فور نافذ کردی ہے۔ اب ڈپٹی کمشنر اور محکمۂ پٹوار کے اہل کار گھروں کی قیمت کا تعیّن کریں گے۔
دونوں گھر مخدوش حالت میں خالی پڑے ہیں، جب کہ محکمہ آثارِ قدیمہ نے اُنھیں خریدنے کے لیے پہلے ہی فنڈز مختص کر رکھے ہیں۔ میوزیم میں دونوں اداکاروں کی پشاور سے وابستگی کی مختلف علامات، فلمز کا ریکارڈ، تصاویر اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد کا ڈیٹا وغیرہ رکھا جائے گا۔دلیپ کمار اور راج کپور کے خاندانوں کا پشاور اور ممبئی میں قریبی تعلق رہا۔ دلیپ کمار نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’ہمارے بزرگوں کے درمیان پشاور میں قریبی تعلقات تھے۔ وہاں کافی تعداد میں ہندو رہائش پذیر تھے، جن کے ساتھ مسلمانوں کے مثالی تعلقات تھے۔ میرے والد، آغا جی کے کافی ہندو دوست تھے۔
راج کپو کے دادا، بشیشور ناتھ اپنے بیٹے، پرتھوی راج کپور کے ساتھ ہمارے گھر آتے تھے۔‘‘راج کپور14دسمبر1924ء کو کپور حویلی، پشاور میں پیدا ہوئے۔ وہ خاندان کے بڑے بیٹے تھے۔ اُن کے دیگر بھائیوں میں ششی کپور اور شمی کپور شامل تھے۔ 1930ء کے لگ بھگ اُن کی فیملی بھارت منتقل ہو گئی۔ راج کپور کا آبائی گھر،’’ کپور حویلی‘‘ قصّہ خوانی بازار کے قریب ڈھکی نعل بندی میں ہے، جو 1918ء میں راج کپور کے دادا، بشیشور ناتھ کپور نے تعمیر کروائی تھی۔ راج کپور فیملی کے دیگر افراد بھی اسی حویلی میں پیدا ہوئے۔ رشی کپور نے 2018ء میں پاکستانی حکومت سے اپنے گھر کو میوزیم میں تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی۔
ذرایع کے مطابق، مالکان نے اس عمارت کے ایک ارب روپے مانگ رکھے ہیں۔دلیپ کمار 11 دسمبر 1922ء کو پشاور کے محلّے، خداداد میں لالہ غلام سرور کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ 1935ء میں ممبئی کاروبار کے سلسلے میں منتقل ہوئے۔لالہ غلام سرور پھلوں کے بڑے تاجر تھے۔ دلیپ کمار پہلی مرتبہ1988ء میں پشاور آئے اور اپنے گھر کا دورہ کیا۔ سابق وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف نے 2014ء میں دلیپ کمار کے گھر کو قومی وَرثہ قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔
نیز، حکومتِ پاکستان نے دلیپ کمار کی فنی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے 1988ء میں اُنھیں نشانِ امتیاز سے نوازا۔دلیپ کمار کا آبائی گھر مشہور قصّہ خوانی بازار کی پُشت پر محلّہ خدا داد میں واقع ہے۔ گھر کے موجودہ مالک نے دو ارب روپے کی ڈیمانڈ کی ہے۔
یہ دونوں عظیم اداکار پہلی اور آخری بار 1949ء میں فلم ’’انداز‘‘ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ یہ تکونی محبّت (ایک ہیرو، دو ہیروئن) کے فارمولے پر بننے والی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار محبوب خان اور موسیقار نوشاد تھے۔ فلم کی ہیروئن نرگس تھیں۔ گیت مجروح سلطان پوری نے تحریر کیے تھے۔اس فلم نے شان دار بزنس کیا اور اسی سال راج کپور کی فلم ’’برسات‘‘ نے اس کا ریکارڈ توڑا۔ اس فلم کے گیت بھی کافی مقبول ہوئے، خاص طور پر ’’ٹوٹے نہ دِل ٹوٹے نہ‘‘ زبانِ زدِ عام ہوا۔
دلیپ کمار کی یادگار فلمز میں انداز، میلہ، جگنو، شہید، دیدار، بابل، داغ، آزاد،نیا دور، گنگا جمنا، رام اور شیام، مغلِ اعظم، کرانتی، ودھاتا، کرما اور سوداگر شامل ہیں۔ دلیپ پر فلمائے گئے گیتوں میں ’’اُڑیں جب جب زلفیں تیری‘‘،’’ یہ میرا دیوانہ پَن ہے‘‘،’’ املی کا بُوٹا‘‘ اور’’ سہانا سفر اور یہ موسم حسیں‘‘ آج بھی مقبول ہیں۔راج کپور کی یادگار فلمز میں آگ، انداز، برسات، سرگم، آوارہ، شری 420، اناڑی اور’’ جس دیش میں گنگا رہتا ہے‘‘ شامل ہیں۔ راج کپور پر فلمائے گئے گیتوں میں’’آوارہ ہوں‘‘،’’ پیار ہوا، اقرار ہوا‘‘،’’ اب رات گزرنے والی ہے‘‘ اور’’ آجا صنم ‘‘زبانِ زد عام ہوئے۔
اے این پی کے دورِ حکومت(2012ء) میں وزیرِ اطلاعات و ثقافت، میاں افتخار حسین اور وزیرِ سیّاحت و آثارِ قدیمہ سیّد عاقل شاہ نے دلیپ کمار کے آبائی گھر کا دَورہ کیا اور اسے قومی وَرثہ قرار دیا، جب کہ میاں نواز شریف نے 2014ء میں دلیپ کمار کے آبائی گھر کو قومی وَرثہ قرار دینے کا باقاعدہ اعلان کیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ محکمۂ آرکیالوجی کے ایک افسر نے بتایا کہ’’ مالک مکان اور محکمۂ ثقافت کے مابین مکان کی فروخت کے حوالے سے رقم پر اختلافات پیدا ہوئے، جس پر مالک مکان نے عدالت سے رجوع کرلیا، یوں کافی وقت ضائع ہوا۔‘‘
اِس ضمن میں ہماری ڈائریکٹر آرکیالوجی، خیبر پختون خوا، ڈاکٹر عبدالصّمد خان سے تفصیلی بات چیت ہوئی، جنھوں نے صوبے میں پائے جانے والے آثارِ قدیمہ کی تفصیلات کے ساتھ، اُن کے تحفّظ کے لیے کیے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔1981ء میں کوہاٹ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالصّمد نے پشاور یونی ورسٹی سے ایم اے آرکیالوجی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اسکالرشپ پر جرمنی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور 2007ء میں انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشین لینگویجز اینڈ کلچرل یونی ورسٹی آف برلن سے پی ایچ ڈی کی۔ فری یونی ورسٹی، برلن میں سنسکرت زبان کا مطالعہ کیا اور کوٹبس یونی ورسٹی، جرمنی سے ورلڈ ہیریٹیج اسٹڈیز میں سرٹیفکیٹ کورس کیا۔
حال ہی میں امریکا کی وسکانسن یونی ورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ ڈگری کے لیے فُل برائٹ فیلوشپ حاصل کی۔دس برس ہزارہ یونی ورسٹی، مانسہرہ میں تدریس کا فریضہ انجام دیا، جس کے دَوران 11 ایم فِل ریسرچ اسکالرز کی نگرانی کی، جب کہ اِس عرصے میں اُن کا تحقیقی کام بھی جاری رہا۔ ہزارہ یونی ورسٹی میں محکمۂ آثار قدیمہ کے شعبے کے سربراہ کے ساتھ، ہیڈ آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اُنہوں نے ہی 2012ء میں پاکستان میں پہلی بار ہیرٹیج مینجمنٹ کو بطور مضمون ہزارہ یونی ورسٹی، مانسہرہ میں متعارف کروایا۔ پاکستان کے علاوہ جرمنی، اٹلی، برطانیہ، امریکا، جنوبی کوریا ، سری لنکا اور عمان میں آثارِ قدیمہ سے متعلق لیکچرز دے چُکے ہیں۔
نیز، اُنھیں 2009 ء میں جرمن پارلیمنٹ میں بھی لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا۔ علاوہ ازیں، آکسفورڈ سمیت دنیا کی کئی معروف یونی ورسٹیز میں بھی لیکچرز دیتے رہتے ہیں۔اُن کے خطّے کی قدیم تاریخ سے متعلق متعدّد تحقیقی مقالے شائع ہوچُکے ہیں۔ ایک اہم تحقیقی مقالہ’’گندھارا میں ہندو مذہب کا اُبھرنا‘‘ کے عنوان سے ہے، جو جرمنی کی فری یونی ورسٹی سے کتابی شکل میں منظرِعام پر آچُکا ہے۔نیز، ہندو مذہب، کیلاش قبیلے اور پاکستان میں آثارِ قدیمہ کے بارے میں سروے کی نئی تیکنیکس متعارف کروانے پر بھی اُن کا کام تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ 20 سے زائد قومی اور بین الاقوامی منصوبوں کے لیے بطور پراجیکٹ ڈائریکٹر کام کیا۔ وادیٔ چترال میں 200 سے زائد نئے آثار قدیمہ کی نئی سائٹس دریافت کیں۔
آثارِ قدیمہ کے میدان میں اسی تجربے کے پیشِ نظر صوبائی حکومت نے ہزارہ یونی ورسٹی مانسہرہ سے اُن کی خدمات حاصل کیں اور 2014ء میں ڈائریکٹر آثار قدیمہ اینڈ میوزیم تعیّنات کردیا۔ یونی ورسٹی کی خدمات چھوڑنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور آثارِ قدیمہ کے میدان میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں 23 مارچ 2018 ء کو حکومتِ پاکستان نے اُنھیں صدارتی ایوارڈ’’ پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ سے بھی نوازا۔ڈائریکٹر آرکیالوجی، ڈاکٹر عبدالصمد خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ’’ دونوں گھروں کو قومی وَرثہ قرار دیا گیا ہے اور انھیں جلد میوزیم میں تبدیل کیا جائے گا، کیوں کہ اِن گھروں کی بحالی’’ پشاور بحالی پروگرام‘‘ کا حصّہ ہے، جس کا مقصد پشاور کی عظمتِ رفتہ اور ثقافت بحال کرنا ہے۔
مالکان گھروں کو مسمار کرکے پلازے تعمیر کرنا چاہتے تھے، لہٰذا سیکشن فور نافذ کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کو زمین کی قیمت کے تعیّن کا خط بھجوایا گیا، جس کے بعد حکومتی اہل کاروں نے پیمائش اور سروے کا کام مکمل کرلیا ہے۔ دلیپ کمار کے گھر کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس کی صرف بیرونی دیواریں ہی باقی ہیں، تاہم راج کپور کے گھر کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔
حکومت نے مالکان کے خلاف مقدمات درج کرکے اُنھیں گھر مسمار کرنے سے روک دیا ہے۔‘‘دلیپ کمار اور راج کپور کے مکانات عجائب گھروں میں بدلنے کی خبر بھارت سمیت دنیا بھر میں میڈیا کی زینت بنی۔
اِس حوالے سے ڈاکٹر عبدالصمد نے بتایا’’ جب مَیں نے چارج سنبھالا، تو محکمہ آثارِ قدیمہ کا بجٹ دو کروڑ روپے تھا، جب کہ پچھلے چار سالوں میں بجٹ دو کروڑ سے دو ارب روپے تک پہنچ چُکا ہے۔ پشاور کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں آثارِ قدیمہ اور آرکیالوجیکل سائٹس کے حوالے سے عوام میں آگاہی نہیں تھی،جس کے لیے ہم نے باقاعدہ طور پر مہم شروع کی تاکہ لوگ آثارِ قدیمہ کے تحفّظ اور بحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ تاریخی مقامات کی حفاظت کے ضمن میں 2016ء میں خیبر پختون خوا اسمبلی سے انکوٹیز ایکٹ بھی پاس کروایا گیا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ’’ محکمہ آثارِ قدیمہ ضلع پشاور میں واقع1800 سے زائد مکانات کو ثقافتی وَرثہ قرار دے چُکا ہے۔ حال ہی میں محکمے نے پشاور شہر کا سروے مکمل کیا ، جس میں ان 1800 سے زاید قدیم گھروں کی نشان دہی ہوئی تھی۔خیبر پختون خوا انکوٹیز ایکٹ2016 ء کے مطابق 100 سال سے زاید پرانی عمارات تاریخی اور ثقافتی وَرثہ قرار دی گئی ہیں، جن کا تحفّظ محکمے کی ذمّے داری ہے۔ اس ایکٹ کے تحت مالکان کے لیے کسی بھی قسم کی مرمّت وغیرہ سے پہلے محکمے سے اجازت لینا ضروری ہے، جب کہ خلاف ورزی پر دو سے پانچ سال قید کی سزا اور 5 سے 20لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، انکوٹیز ایکٹ میں ترامیم کے لیے کام جاری ہے تاکہ سزائیں مزید سخت کی جاسکیں۔البتہ نوٹسز بھجوانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ مالکان ان گھروں کی تزئین وآرائش نہیں کرسکتے یا اُنھیں کرائے پر نہیں دیا جا سکتا۔بس جو بھی کرنا ہے، محکمہ آثارِ قدیمہ سے پوچھ کر کرنا ہے۔باقی ان گھروں کی ملکیت سے محکمے کا کوئی سروکار نہیں۔ محکمے کا کام صرف ان عمارتوں کی حفاظت اور بحالی ہے۔‘‘اُنھوں نے آرکیالوجیکل سائٹس سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’آرکیالوجیکل سروے کے دَوران چترال میں دو سو سائٹس دریافت ہوئیں، جب کہ بونیر میں چار سو اور ضلع خیبر میں ڈیڑھ سو کے قریب سائٹس دریافت کی گئیں۔ ڈی آئی خان میں رحمان ڈھیری میں آرکیالوجیکل کھدائی کی گئی، تو یہاں ہڑپہ اور موہن جو دڑو جیسے آثار ملے، جو ابتدائی تہذیب کی علامت ہیں۔
سکندر ساؤتھ، صوابی، باجہ بام خیل ،کرنل شیر، بہمالہ خان پور ،سوات املوک درّہ ،چترال میں آرکیالوجیکل کھدائی کی گئی، جس کے دوران کئی تاریخی آثار دریافت ہوئے۔ اِسی طرح ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا آرکیالوجیکل سروے کیا گیا، جس میں 30ہزار سال پرانے آثار اور110 قدیم سائٹس دریافت ہوئیں، جن میں سنگ تراشی، پتھروں پر پینٹنگ، مساجد، قلعے، امیر تیمور کے وقت کا جیل خانہ، پھانسی گھاٹ، ٹنل، 8بدھ مت سائٹس اور دیگر تاریخی مقامات شامل ہیں۔ ان میں کئی ایک قبل از تاریخ کے آثار ہیں۔110 مقامات پر پتھروں پر انسانی نشانات پائے گئے۔ یہ علاقہ آثارِ قدیمہ سے بَھرا ہوا ہے۔ اگر یہاں باقاعدہ کھدائی کی جائے، تو انتہائی اہم آثار مل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخی دیواریں، عمارتیں، سُرنگیں، بدھ دَور کے اسٹوپا بھی دریافت ہوئے۔
خیبر کے اِس راستے کو یونانیوں اور بُدھ مَت کے پیروکاروں کے علاوہ وسط ایشیا سے آنے والے مسلمان حملہ آوروں نے بھی استعمال کیا۔ خیبر پاس کا یہ علاقہ وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتا رہا اور یہ تجارت کا بھی اہم رُوٹ تھا۔ حالیہ دنوں میں برطانوی دَور کے آثار بھی ملے ہیں، جن میں 34 سرنگیں اور وہ ریلوے لائن شامل ہے، جو ایک اہم وَرثہ ہے، لیکن اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ بھارت میں اس طرح کے ریلوے ٹریک کو ورلڈ ہیریٹیج قرار دیا گیا ہے۔ خیبر میں ملنے والے آثار موہن جو دڑو اور ہڑپہ سے بھی قدیم ہیں۔ موہن جو دڑو کے آثار زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار سال قدیم ہیں، جب کہ جمرود کے آثار تیس ہزار سال قدیم ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عبدالصمد نے سروے سے متعلق یہ بھی بتایا کہ’’ جنوبی ایشیا میں سب سے پہلا سروے برطانوی دَور میں کیا گیا، لیکن اُس وقت بھی سابقہ فاٹا میں کوششوں کے باوجود سیکیوریٹی معاملات کی وجہ سے سروے نہیں ہوسکا۔اب ہم نے پہلی بار اس علاقے میں آرکیالوجیکل سروے کیا ہے۔‘‘پاکستان میں مذہبی سیّاحت اور اُس کے مستقبل کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ مذہبی سیّاحت کے فروغ کے لیے ایک ارب روپے کی لاگت سے آرکیالوجیکل سائٹس محفوظ بنائی جارہی ہیں۔ مذہبی سیّاحت کے فروغ سے نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی، بلکہ مُلک کا مثبت امیج بھی دنیا کے سامنے جائے گا۔ خیبر پختون خوا میں بُدھ مَت کی2 ہزار سائٹس سمیت 6000 آرکیالوجیکل سائٹس موجود ہیں، جنھیں محفوظ کیا جارہا ہے۔نیز، اسی سلسلے میں’’ بُدھ مَت کانفرنس‘‘ کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے۔
حکومت نے صوبے بھر میں پھیلے مذہبی مقامات کی اَپ گریڈیشن اور اُنہیں محفوظ بنانے کے لیے بجٹ میں دو ارب روپے مختص کیے ہیں، جن میں 600 ملین روپے ہندو مت، بُدھ مَت، سِکھ اور دیگر مذاہب کے مذہبی مقامات کی بحالی پر خرچ کیے جارہے ہیں۔نیز، بُدھ مت سے تعلق رکھنے والے ممالک بھی اپنے مقدّس مقامات کی اَپ گریڈیشن میں اہم کردار کرسکتے ہیں۔ مذہبی سیّاحت کے فروغ کے لیے’’ عالمی گندھارا کانفرنس‘‘ اپریل 2020ء میں ہونی تھی، تاہم کووِڈ 19 کی وجہ سے ملتوی کرنی پڑی، جو اب اگلے سال منعقد ہوگی۔ اس کانفرنس کے لیے خیبر پختون خوا حکومت کو’’ کائٹ پراجیکٹ‘‘ کا تعاون حاصل ہوگا۔
کانفرنس کا مقصد بُدھ مَت سے تعلق رکھنے والے ممالک کو صوبے میں پھیلے صدیوں پرانے اُن کے مذہبی وَرثے کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔کانفرنس میں چین، جاپان، کوریا، تھائی لینڈ، نیپال، سری لنکا سمیت دیگر ممالک کے سفیروں، بُدھ مَت کے پیروکاروں اور امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی،اٹلی اورچین سے مندوبین کو مدعو کیا جائے گا۔ جب کہ قومی اور بین الاقوامی ماہرینِ آثارِ قدیمہ مقالات پیش کریں گے۔
یوں اس کانفرنس کے ذریعے مذہبی سیّاحت کے مواقع سامنے لائے جائیں گے۔‘‘ڈاکٹر عبدالصمد نے یہ بھی بتایا کہ’’ حکومت نے مذہبی سیّاحت کے فروغ کے لیے’’ گندھارا ٹریل‘‘ کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے 20 کے قریب سائٹس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ سائٹس تین رُوٹس میں تقسیم کی گئی ہیں۔ مقامی اور بین الاقوامی سیّاح ان تمام سائٹس کا سات دن میں دَورہ کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں سیّاحوں کے لیے مختلف پیکجز کا اعلان کیا گیا ہے۔ کوئی بھی سیّاح کسی ایک رُوٹ یا زاید کا دَورہ کرسکے گا۔ حکومت نے ان سائٹس پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے فنڈز مختص کردئیے ہیں۔‘‘ قدیم آثار کے تحفّظ کے لیے عملے کی تعلیم و تربیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جس سے محکمۂ آثارِ قدیمہ خیبر پختون خوا غافل نہیں۔
اِس ضمن میں ایک سوال پر محکمے کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ’’ اٹلی نے ایک ارب روپے کے ایک پراجیکٹ کی منظوری دی ہے، جس کا بنیادی کام محکمۂ آثار قدیمہ کے اہل کاروں کو تربیت فراہم کرنا ہے، جو اٹلی کے ماہرین سرانجام دیں گے۔ اس کے علاوہ، ایک لیبارٹری بھی قائم کی جا رہی ہے، جب کہ صوبے کے پانچ مقامات پر فیلڈ ٹریننگ اسکولز قائم کیے جارہے ہیں۔ اٹلی پولیس آرکیالوجیکل اسمگلنگ روکنے کے لیے پولیس کو تربیت دینے کے ساتھ ہمارے عملے کو بھی تربیت دے گی۔‘‘
ڈاکٹر عبدالصمد نے ادارے کی کارکردگی کے ضمن میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایا’’عُہدہ سنبھالتے ہی اداراتی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے بھرپور کام شروع کردیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ خیبر پختون خوا مہارت کے لحاظ سے نمایاں پوزیشن پر ہے۔ ہمارے پاس بہترین پروفیشنلز اور انجینئرز ہیں۔ صوبائی حکومت نے ریگی ماڈل ٹائون میں عالمی معیار کے عجائب گھر کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے 30 کینال سے زائد اراضی محکمہ آرکیالوجی کے حوالے کردی گئی ہے، جب کہ ضم شدہ اضلاع میں بھی چار عجائب گھر بنانے کا اصولی فیصلہ ہوچُکا ہے۔خیبر پختون خوا میں تین مزید عجائب گھر بنائے جارہے ہیں۔
جن میں سے ڈی آئی خان اور ایبٹ آباد کے عجائب گھروں کی عمارتیں مکمل ہوچُکی ہیں، جب کہ کوہاٹ عجائب گھر کے لیے زمین کا انتخاب ہو چُکا ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے علاقوں جمرود اور وزیرستان سمیت چار مقامات پر عجائب گھروں کی تعمیر کے لیے اراضی حاصل کی جا رہی ہے۔علاوہ ازیں، گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر چوک تک ہیرٹیج ٹریل بنانے کا مقصد پشاور شہر کی اصل اور قدیمی شکل کو اجاگر کرنا ہے۔ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ خیبر پختون خوا کے تحت بننے والے منصوبے میں تحصیل گورگٹھڑی کے مغربی دروازے سے گھنٹہ گھر چوک تک کے علاقے کی تاریخی حیثیت بحال کر دی گئی ہے۔یہاں کی تمام عمارتوں کی اَپ لفٹنگ کے ساتھ بجلی اور ٹیلی فون کے تاروں اور گیس کی پائپ لائنز کو زیرِ زمین کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ، نکاسیٔ آب کی نالیوں اور نالوں کو بھی ڈھانپا گیا ہے۔‘‘ صوبے میں مختلف مذاہب کی تاریخ کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ’’خیبر پختون خوا میں مذہبی روا داری کی ابتدا آج سے دو ہزار سال قبل ہوئی، جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
صوبے میں دو ہزار سال پہلے سات یا آٹھ مذاہب کے لوگ اکھٹے رہتے تھے، جس کے ثبوت موجود ہیں۔ گندھارا آرٹ کے پینل میں مختلف مذاہب کے چار یا پانچ معبودوں کے تصوّرات ملتے ہیں اور پھر بھی علاقہ نہایت پُرامن تھا۔ ہم نے بُدھا کا ایک مجسمہ سوئٹزر لینڈ بھیجا، تو وہاں 35ہزار لوگوں نے اُسے دیکھا۔ دیگر ممالک میں بھی منعقدہ ایسی نمائشوں میں شرکت سے ہمارے کلچر، ہیریٹیج اور مذہبی رواداری کی روایات کو پذیرائی ملتی ہے۔‘‘ گردش میں رہنے والی بعض اطلاعات سے متعلق اُنہوں نے بتایا کہ’’ پشاور میوزیم سے کوئی چیز چوری نہیں ہوئی۔
نیب نے مجھے غریب لوگوں کو روزگار فراہم کرنے اور کلاس فور میں بھرتیوں پر گرفتار کیا۔ چوں کہ کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہے، اِس لیے اس پر زیادہ بات نہیں کرسکتا۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ’’ سری بہلول کے علاقے کو’’ ورلڈ ہیریٹیج‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تقریباً ہر گھر میں اور ہر جگہ قدیم آثار موجود ہیں۔ اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں سے اُن کے گھر خرید کر پورا علاقہ حکومتی تحویل میں لے لیا جائے تاکہ قدیم آثار کا تحفّظ کیا جا سکے۔ ‘‘